(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اور مصر کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے نئی مصری تجویز پر مذاکرات جاری ہیں۔ جمعہ کے روز مختلف صیہونی ذرائع ابلاغ نے تصدیق کی ہے کہ دونوں ممالک نے ایک ابتدائی معاہدے کے مسودات کا تبادلہ کیا ہے، جس میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا خاکہ شامل ہے۔
صیہونی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، مصر کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ معاہدے میں آٹھ زندہ صیہونی قیدیوں اور آٹھ لاشوں کی رہائی کے بدلے 40 سے 70 دن کی جنگ بندی، اور بڑی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
ادھر صیہونی چینل آئی 24 نے ایک سیاسی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ "غزہ سے متعلق معاہدے کی طرف حقیقی پیش رفت ہو رہی ہے۔”
صیہونی ریاست کے سرکاری ریڈیو کان کے مطابق، وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کی شب اس نئی مصری تجویز کے پس منظر میں سیکیورٹی اداروں اور مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ایک اہم مشاورتی اجلاس بھی منعقد کیا۔
نیتن یاہو نے جمعہ کو یہودی مذہبی تہوار عید فسح کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا:
"ہمیں معلوم ہے کہ کئی خاندانوں کے دستر خوان پر نشستیں خالی ہوں گی۔ ہم اپنے یرغمالیوں کو واپس لائیں گے، دشمنوں کو شکست دیں گے، زخمیوں کو گلے لگائیں گے اور اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔”
صیہونی چینل 13 نے بتایا کہ نیتن یاہو کی کابینہ کو اس وقت ایک سنجیدہ معاہدے پر مسلسل بریفنگ دی جا رہی ہے، جو کہ غزہ میں موجود صیہونی قیدیوں کی واپسی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
اخبار یدیعوت آحارونوت نے انکشاف کیا کہ قیدیوں کے اہل خانہ کو اطلاع دی گئی ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ممکنہ معاہدے کی پشت پر موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ کے نمائندے اسٹیفن وٹکوف نے اہل خانہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ ایک "انتہائی سنجیدہ اور مکمل معاہدہ” چند دنوں میں طے پا سکتا ہے۔
ٹرمپ نے بھی جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ غزہ میں موجود صیہونی قیدیوں کی واپسی میں "نمایاں پیش رفت” ہوئی ہے اور ان کی رہائی "قریب” ہے۔
اسی معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے، امریکی نمائندہ برائے یرغمالی امور، ایڈم بولر نے کہا کہ امریکہ قیدیوں کی بازیابی کے لیے "برے لوگوں” سے بات کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا، تاکہ قیدیوں کو رہا کروایا جا سکے۔
تاہم ان تمام سفارتی کوششوں کے باوجود، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے 18 مارچ کو ایک بار پھر غزہ پر بھرپور فوجی جارحیت کا آغاز کیا، جس میں فضائی اور زمینی حملے شامل تھے۔ یہ حملے ان تمام معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی تھے جو 19 جنوری سے نافذ العمل جنگ بندی کے تحت قائم تھے۔
نئی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔ اس حملے سے قبل بھی غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کر دیے تھے، جس سے امدادی سامان کی ترسیل رک گئی اور انسانی بحران مزید شدید ہو گیا۔