(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سینئر رہنما طاہر النونو نے تصدیق کی ہے کہ ان کی جماعت مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ مذاکرات میں مصروف ہے اور ایک جامع معاہدے کے لیے تیار ہے جس میں قیدیوں کے تبادلے، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا اور تعمیر نو کے عمل کا آغاز شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت نے 17 جنوری کو طے پانے والے تین نکاتی معاہدے کی روشنی میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا ہے۔
النونو نے زور دے کر کہا کہ فلسطینی مزاحمت کے ہتھیار قابلِ گفت و شنید نہیں، جب تک فلسطین مقبوضہ رہے گا غیرقانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حماس اور دیگر مزاحمتی دھڑے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں اور ایک سنجیدہ حل کی تلاش میں ہیں، مگر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت خود ان مذاکرات میں رکاوٹ ہے۔
حماس رہنما کے مطابق، ثالثی عمل نیتن یاہو کی ضد اور سیاسی مقاصد کے باعث متاثر ہوا، تاہم رمضان کے اختتام پر ثالثوں کی پیش کردہ تجویز پر حماس نے اتفاق کیا، باوجود اس کے کہ انہیں یقین ہے نیتن یاہو جنگ کو طول دے کر اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حماس کے مطابق مذاکرات کی بحالی اسرائیلی ہٹ دھرمی کے باوجود ایک ضروری قدم ہے۔
طاہر النونو نے فلسطینی صدر محمود عباس کے حالیہ بیانات کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ قومی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی صدر کی قیادت میں اتحاد ممکن نہیں، کیونکہ ان کے بیانات مزاحمت کی حمایت کے بجائے قابض قوت کے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں، جو فلسطینی کاز کے لیے نقصان دہ ہے۔