(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے فوجی تحقیقات نے اکتوبر 2023 کواسلامی مزاحمتی تحریک "حماس” اور دیگر فلسطینی گروہوں کی جانب سے انجام دیئے گئے "طوفان الاقصیٰ” حملے کے حوالے سے نئی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ یہ انکشافات خاص طور پر "نتیف ہعسرا” نامی صیہونی بستی سے متعلق صیہونی عوام کے لیے حیران کن ہیں۔
تحقیقات کے مطابق، 37 صیہونی فوجی تین القسام مجاہدین کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے، اور دو گھنٹوں کی لڑائی کے دوران 17 صیہونی آبادکار مارے گئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بستی کے سیکیورٹی انچارج سمیت 25 فوجیوں نے مزاحمت کرنے کے بجائے گھروں میں پناہ لینے کو ترجیح دی۔
تحقیقات میں مزید بتایا گیا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوج کو ہتھیاروں، جنگی وسائل اور انسانی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو کہ اس کے "دائمی مسائل” ہیں اور 7 اکتوبر کے حملے کے دوران مزید نمایاں ہو گئے۔
تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ کمانڈر نے مذہبی فوجیوں کو جنگ میں حصہ لینے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی اس نے "گولانی” بریگیڈ کی ایک یونٹ کو متحرک کیا، جو کہ قریبی زرعی گرین ہاؤسز میں موجود تھی۔ اس کے علاوہ، رپورٹ میں بتایا گیا کہ "گولانی” بریگیڈ کے فوجیوں نے فوری طور پر کارروائی کرنے کے بجائے "واٹس ایپ” کے ذریعے احکامات کا انتظار کیا۔
تحقیقات کے مطابق، یہ لڑائی بغیر کسی نقصان کے القسام مجاہدین کی کامیابی پر ختم ہوئی، جبکہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے فوجیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ صیہونی فوج کے لیے تاریخ کی سب سے مایوس کن جنگوں میں سے ایک تھی۔
حیران کن طور پر، صیہونی فوج کو اس جنگ میں واضح عسکری برتری حاصل تھی، کیونکہ بستی میں ایک سینئر فوجی کمانڈر، "گولانی” بریگیڈ کی مستقل فورس، اور ایک مسلح ریزرو فورس موجود تھی۔ اس کے باوجود، صرف تین القسام مجاہدین نے صیہونیوں کو بھاری نقصان پہنچایا، اور ان میں سے دو محفوظ طریقے سے غزہ واپس جانے میں کامیاب ہو گئے۔
تحقیقات کے مطابق، بستی کے چیف آف اسٹاف نے 25 رکنی فورس کو گھروں میں رہنے اور حملہ آوروں کا سامنا نہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ وہ بہترین تربیت یافتہ فوجی تھے اور ان کے پاس اپنے گھروں میں ہتھیار بھی موجود تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دیگر صیہونی بستیاں اپنے ہتھیاروں کو لاکرز میں بند رکھتی ہیں، جبکہ یہاں فوجی اپنے گھروں میں مسلح تھے لیکن لڑنے کے بجائے چھپنے کو ترجیح دی۔
اس رپورٹ میں "گولانی” بریگیڈ کی علاقائی بٹالین کی مکمل ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا، جو کہ لڑائی کے دوران بے اثر رہی۔ مزید یہ کہ جب فورس موقع پر پہنچی تو اس نے فوری کارروائی کرنے کے بجائے مزید احکامات کے انتظار میں نصف گھنٹہ ضائع کر دیا۔
تحقیقات کی قیادت کرنے والے کرنل نمرد الونی نے کہا کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی فوجی حکمت عملی میں سنگین خامیاں ہیں، خاص طور پر آپریشنل تیاری کے دوران غفلت اور سرحدی علاقوں میں فوجی تعداد میں کمی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماضی میں "نتیف ہعسرا” بستی کی حفاظت کے لیے دو بڑی فوجی یونٹیں تعینات تھیں، جن میں سے ہر ایک میں 40 فوجی شامل تھے۔ تاہم، بے جا اعتماد کے باعث اس فورس کو کم کر دیا گیا، جس سے بستی ایک آسان ہدف بن گئی۔
صبح 6:34 بجے، تین فلسطینی مجاہدین پیراشوٹ کے ذریعے بستی میں اترے۔ ان کے پیچھے تقریباً 30 دیگر مجاہدین بھی پیدل حملہ کرنے والے تھے، لیکن صیہونی فورسز نے حملے کا بروقت سامنا کرنے میں ناکامی ظاہر کی اور مکمل انتشار کا شکار ہو گئیں۔
تحقیقات کے مطابق، "گولانی” بریگیڈ کے کیپٹن نے مذہبی فوجیوں کو لڑنے کا حکم نہیں دیا، اور خود بھی میدان میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ کر صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مستوطن فوجیوں نے اپنی ڈیوٹی کو "ہفتہ وار چھٹی” کے طور پر لیا، جس کی وجہ سے فوجی ناکامی مزید بڑھ گئی۔
تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ صیہونی فوج کے آپریشنل کلچر میں فوری ردعمل اور زمینی کارروائی کی صلاحیت کا شدید فقدان ہے۔ فوجی مکمل طور پر ڈیجیٹل کمیونیکیشن اور ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہے ہیں، جبکہ عملی طور پر تیزی سے کارروائی کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
یہ سنگین ناکامی "نتیف ہعسرا” کی جنگ میں صیہونی فوج کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتی ہے اور مستقبل کے حملوں کے خلاف ان کی تیاری پر کئی سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ نے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی اور اس کی بستیوں اور سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت پر گہرے شکوک پیدا کر دیے ہیں۔