(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے قابض اسرائیل کے فوجی سربراہ کی جانب سے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی منظوری اور عسکری کارروائیوں میں تیزی لانے کے فیصلے کو غزہ کے لاکھوں باسیوں اور بے گھر پناہ گزینوں کے خلاف ایک نئی نسل کشی اور جبری بے دخلی کی لہر شروع کرنے کا صہیونی اعلان قرار دیا ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ اعلان غزہ میں ایک بڑے جنگی جرم کے ارتکاب کا ننگا اعتراف ہے جو صہیونی گھمنڈ اور درندگی کی بدترین تصویر ہے۔ حماس کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلی توہین اور مسلسل بائیس ماہ سے جاری فلسطینی نسل کشی کی جنگ کو امریکی پشت پناہی میں آگے بڑھانے کا اعلان ہے جس پر عالمی برادری کی خاموشی اور بے بسی افسوسناک ہے۔
تحریک مزاحمت نے اس امر پر زور دیا کہ غزہ کے جنوبی حصے میں نام نہاد انسانی انتظامات کے عنوان سے خیمے لگانے کی باتیں کھلی فریب کاری ہیں جن کا مقصد صرف اس بھیانک صہیونی منصوبے پر پردہ ڈالنا ہے جس کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی ان اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں انسانی تقاضوں سے عاری اور شہریوں کے خلاف ظالمانہ دباؤ کے مجرمانہ حربے قرار دیا ہے۔
حماس نے کہا کہ غزہ میں جاری قتلِ عام مغربی کنارے سے الگ نہیں ہے جہاں قابض اسرائیلی فوج کے روزانہ چھاپے، صہیونی آبادکاروں کے مسلح حملے اور فلسطینی املاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ صہیونی منصوبہ ایک ہی ہے، جس کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے جلا وطن کرنا، مسلمانوں اور مسیحیوں کے مقدسات پر صہیونی قبضے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جنگی مجرم بنجمن نیتن یاھو اور اس کی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں اس کے حقیقی عزائم کو ظاہر کرتی ہیں جو "گریٹر اسرائیل” کے نام سے ایک جارحانہ منصوبے کے قیام پر مبنی ہیں۔ یہ منصوبہ نہ صرف فلسطین بلکہ اردن، مصر، شام، لبنان اور عراق سمیت پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے۔ حماس نے امت مسلمہ سے فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کی پشت پر کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہی امت کا واحد دفاعی محاذ ہے۔
حماس نے آخر میں کہا کہ یہ نہایت نازک اور خطرناک لمحہ ہے جس میں فلسطینیوں کو ایک متحد قومی موقف اپنانے اور جامع مزاحمتی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مجرمانہ منصوبوں کا راستہ روکا جا سکے جو ہمارے عوام کو مٹانے اور ان کی شناخت ختم کرنے کے لیے ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ عرب اور اسلامی ممالک پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے ان فاشی منصوبوں کے مقابلے میں واضح اور عملی اقدامات کریں جو اس خطے کی ریاستوں اور عوام کو براہِ راست نشانہ بنا رہے ہیں۔