(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریکِ مزاحمت حماس نے دنیا بھر کے انصاف پسند اور بیدار ضمیر افراد اور قوموں سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو تمام ممالک کے دارالحکومتوں، شہروں، چوراہوں، سڑکوں، جامعات اور ہر عوامی و ابلاغی پلیٹ فارم پر متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ وحشیانہ قحط اور قابض اسرائیل کے محاصرے کے خلاف احتجاج کریں۔
حماس نے زور دیا کہ یہ احتجاج صرف ان مخصوص دنوں تک محدود نہ رہے بلکہ آنے والے ہر دن کو احتجاج، مزاحمت اور حق کی آواز بلند کرنے کے دن کے طور پر منایا جائے۔ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک قابض اسرائیل غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کر دیتا اور غزہ میں فاقہ کشی کاشکار بچوں، ماؤں اور بزرگوں کو زندگی کی امید دوبارہ نہیں مل جاتی۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری اجتماعی قحط اور نسل کشی کی مہم اب ایک سنگین انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، مائیں بے بسی سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھ رہی ہیں اور بزرگ غذائی قلت کے بباعث انتقال کر رہے ہیں جبکہ دنیا کی خاموشی انسانیت کے نام پر ایک بدنما داغ بن چکی ہے۔
بیان میں زور دیا گیا کہ آنے والے دن قابض سفاک ریاست کے خلاف ایک گونجتی ہوئی آواز بن جائیں جو خاموش تماشائیوں کے لیے دائمی شرمندگی کا باعث بنے۔ دنیا بھر غاصب اسرائیل کے سفارت خانوں، امریکی سفارتی مشنز پر مظاہرے، دھرنے اور ریلیاں منعقد کی جانی چاہئیں۔
حماس نے پوری دنیا سے مطالبہ کیا کہ وہ متحد ہو کر "غزہ میں فاقہ کشی بند کرو” کا نعرہ بلند کرے۔ تحریک کا کہنا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی سانحہ نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے جو اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دنیا غزہ کے حق میں کھڑی ہو، اس نسل کشی اور قحط کو ختم کرے اور ظالم صہیونی حکومت کو بے نقاب کرے۔
حماس نے واضح کیا کہ قابض اسرائیلی افواج امریکہ کی حمایت سےمغربی ممالک کی مجرمانہ خاموشی، اور عالمی برادری کی بے حسی کی چھتری تلے گزشتہ تقریباً بائیس ماہ سے غزہ میں اجتماعی نسل کشی کی بدترین مہم چلا رہی ہیں۔ اس ظلم کا شکار اب تک دو لاکھ ایک ہزار سے زائد فلسطینی ہو چکے ہیں جن میں شہید اور زخمی ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ، بیس لاکھ سے زائد افراد جبری نقل مکانی، بھوک، پیاس اور شدید اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔