(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے مذاکرات کے میدان میں پچھلے چار ہفتوں سے کوئی سنجیدہ پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے اس کی بڑی وجہ امریکہ کی مجرمانہ خاموشی اور واضح موقف سے گریز کو قرار دیا جو قابض ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی نسل کُش مہم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔
اسامہ حمدان نے پیر کے روز ایک پریس بیان میں کہا کہ بنجمن نیتن یاھو ایران کے ساتھ کشیدگی کو ایک اندرونی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ نیتن یاھو فلسطینیوں کے خون کو سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا رہا ہے اور دنیا کو ان لاشوں کی بنیاد پر بلیک میل کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اب بھی اس بات کی خواہاں ہے کہ ایک ایسا معاہدہ سامنے آئے جو قابض اسرائیل کے جارحانہ حملوں کا خاتمہ کرے، تمام بارڈر کراسنگ کھولے اور فلسطینی عوام کو معمول کی زندگی کی جانب لے جائے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ واضح کیا کہ اگر قابض ریاست اپنی بربریت سے باز نہیں آیا تو اس کےجواب میں مزاحمت جاری رہے گی۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ حماس کی جانب سے ایک مکمل، منصفانہ اور انسانی بنیادوں پر مبنی تجویز پیش کی جا چکی ہے جس کے ذریعے ایک پائیدار معاہدہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم مکمل خودمختار ریاست کی مستحق ہے۔
انہوں نے امریکہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرے کیونکہ اس کا طرز عمل درحقیقت بنجمن نیتن یاھو کو اندرون ملک اور عالمی سطح پر بری الذمہ قرار دینے کی کوششوں کا حصہ ہے حالانکہ وہ بین الاقوامی عدالت سے جنگی جرائم کا مُرتکب ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اپنے عوام کی حفاظت اور اس قتل عام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے اور چاہتی ہے کہ دنیا ایک عملی اور مضبوط موقف کے ساتھ قابض ریاست کو لگام دے اور فلسطینی عوام کو انصاف دلائے۔
یاد رہے کہ قابض صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ میں جاری نسل کشی کا سلسلہ ساتھ اکتوبر 2023ء سے جاری ہے جس کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اس خونریز عدوان میں اب تک ایک لاکھ نوےہزار کے قریب فلسطینی شہید و زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتا ہیں، لاکھوں افراد در بدر ہو چکے ہیں اور قحط کی وجہ سے درجنوں بچوں سمیت بے شمار معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
فلسطینی قوم آج بھی اس درندگی اور سامراجی اتحاد کے خلاف اپنے خون سے تاریخ لکھ رہی ہے، لیکن عالمی ضمیر کی مجرمانہ خاموشی فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔