فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت ‘‘حماس’’ کے مرکزی رہ نما اور جماعت کے پارلیمانی بلاک‘‘اصلاح وتبدیلی’’ کے سربراہ ڈاکٹرصلاح الدین بردویل نے
کہا ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کی بحالی صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے سے فرار اختیار کرنے کی کوشش ہے۔ اس وقت صہیونی ریاست سے فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق کی بحالی کے لیے عرب ممالک کو ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی ریاست کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت قابض ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے کی سازش ہیں۔ نیز مذاکرات کے ذریعے ‘‘مردہ گھوڑے’’ میں جان ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب صہیونی حکومت نہ صرف فلسطین میں ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ وہ یہودی آباد کاری اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے بھی مسلسل انکاری ہے۔ ایسے میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایک عرب خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے حماس رہ نما نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کی جانب سے نام نہاد امن بات چیت کی بحالی کے اشارے صہیونی سیاسی شراکت کا حصہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے مذاکرات اس لیےنہیں ہو رہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق چھوڑ دے بلکہ ان مذاکرات کا مقصد فلسطین کا 80 فی صد رقبہ صہیونی ریاست کو دینا ہے۔ باقی جو بیس فی صد علاقہ رہ جاتا ہے اسے فلسطینی ریاست کو دینے کی بات کی جاتی ہے اور وہ بھی صہیونی حکومت کی جانب سے کئی کئی طرح کی شرائط کے ساتھ مشروط کیا جاتا ہے۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات کو دو عشرے بیت چکے ہیں۔ ان دو عشروں میں اب تک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار گذر چکے ہیں، مذاکرات کے کسی بھی دور میں فلسطینیوں کو ان کے حقوق فراہم نہیں کیے گئے بلکہ فلسطینیوں کے حقوق مسلسل غصب کیے جاتے رہے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین