اسرائیلی حکومت کے زیراہتمام کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” عوامی مقبولیت کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے جبکہ مغربی کنارے کی حکمراں جماعت الفتح اور صدر محمود عباس کی مقبولیت کا گراف مسلسل گرتا جا رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صہیونی حکومت کے زیرانتظام مغربی کنارے میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے بارے میں تیار کردہ اس رپورٹ کو صہیونی ریاست کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حماس کی الفتح کے مقابلے میں بڑھتی عوامی مقبولیت دیر پا امن کے قیام کے لیے بھی ایک شدید دھچکا ثابت ہوسکتی ہے۔ صہیونی حکومت اور انٹیلی جنس حلقے حماس کی مقبولیت کی توقع ضرور رکھتے تھے لیکن جو حیران کن اعدادو شمار سامنے آئے ہیں، انہیں صہیونی حکومت کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اور صدر محمود عباس کےدرمیان مقابلے کی صورت میں مشعل کے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ آج اگر مغربی کنارے میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرائے جاتے ہیں تو حماس بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے گی۔
ادھر اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو معاشی بحران پرقابو پانے کے لیے حسب ضرورت امداد نہیں مل رہی ہے، جس کے باعث فلسطینی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ نیز بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر آنے کو ہے۔ گرمی کی چھٹیوں میں ہزاروں فلسطینی نوجوان سڑکوں پر نکل سکتے ہیں، جو اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین