اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سینیئر نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے کسی مرحلے میں بھی مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مصرمیں پچیس جنوری 2011ء اور 30 جون 2013ء کو برپا ہونے والے انقلابات میں حماس مکمل طورپر غیرجانب دار رہی ہے۔ ان تمام انقلابات میں حماس کا کوئی کردار نہیں رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قاہرہ میں اپنے ایک بیان میں حماس رہ نما نے ایک مقامی صحافی مصطفیٰ الفقی کے مضمون "حماس اور مصر” پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے نزدیک مصر صرف ایک برادر ملک اور پڑوسی ہی نہیں بلکہ فلسطینی عوام مصری قوم سے دل سےمحبت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ حماس کے مصر کی تمام نمائندہ قوتوں کے ساتھ یکساں تعلقات رہے ہیں۔ حماس کی مسلح جدوجہد کا ہدف صرف قابض صہیونی دشمن ہے۔ حماس نے اپنے اس غاصب دشمن کے خلاف اعلانیہ بندوق اٹھائی ہے۔ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے سلب کیے گئے حقوق نہیں مل جاتے حماس مسلح جدوجہد کے اصول پرقائم رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ مصر میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات قابل مذمت ہیں۔ چاہے یہ واقعات شہریوں کی جانب سے رونما ہوئے ہوں یا اس میں مصر کے سیکیورٹی اداروں کا ہاتھ ہو۔ حماس مصر کی سالمیت اور امن واستحکام کی خواہاں ہے۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ شہریوں کے سیاسی اور جمہوری حقوق کی جدوجہد آئینی ہے اور اس جدو جہد کو کسی قیمت پر بھی طاقت آزمائی تک نہیں لے جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حماس ایک مکمل خود مختار اور آزاد تنظیم ہے جس کے فیصلے اس کے افراد نہیں بلکہ ادارے کرتے ہیں۔ حماس صرف فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس کےعلاوہ دنیا میں جہاں بھی فلسطینیوں کی طرح مظلوم اقوام استبدادی قوتوں کےخلاف برسرپیکار ہیں حماس ان کی حمایت کرتی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین