مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ حماس تمام عرب ممالک کے ساتھ کھلے پن کے ساتھ تزویراتی تعلقات کے قیام کی خواہاں ہے۔ حماس نے آج تک تمام عرب ممالک کی داخلی سلامتی کی حمایت کی ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی بنیاد پر حماس تمام عرب ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دروازے ہرایک کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ہم ہرمسلمان اور عرب ملک کی طرف سے حماس سے قربت پیدا کرنے کے اقدامات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان میں سعودی عرب اور مصر خاص طورپر شامل ہیں۔
خیال رہے کہ قبل ازیں حماس کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے بھی انکشاف کیا تھا کہ ان کی جماعت اور مصرکے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں جن میں غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی نرم کرنے سمیت باہمی دلچسپی کے امور پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈاکٹر بردویل کا کہنا تھا کہ حماس اور مصر کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ قبل ازیں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق بھی حماس اور مصر کےدرمیان تعلقات کی بہتری کے حوالے سے گفتگو کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو میں مصری حکومت مدد دینے کے لیے تیار ہے۔
مصر اور حماس کے درمیان تعلقات جولائی 2013 ء میں اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب مصرمیں فوج نے ملک کے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئےانہیں اقتدار سےہٹا دیا تھا۔ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا جب جزیرہ نماسینا میں عسکریت پسند گروپوں نے مصری فوج کے خلاف لڑائی شروع کردی۔ مصری حکومت نے الزام عاید کیا کہ حماس جزیرہ نماسینا میں جاری شورش میں عسکریت پسندوں کو سپورٹ کررہی ہے۔ تاہم حماس نے مصری حکومت کے تمام الزامات کومسترد کردیا تھا۔
اپنے انٹرویو میں اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ حماس اور ایران کے درمیان تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور نہ ہی عرب ممالک کے بارے میں حماس کے اصولی موقف کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے یمن میں حوثی باغیوں کی کارروائیوں کو غیر آئینی قرار دے کر سعودی عرب کی قیادت میں حوثیوں کے خلاف ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کی حمات کی تھی۔ اس حمایت کی وجہ سے حماس کے ایران سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاملے پربات کرتےہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ذرائع ابلاغ جنگ بندی سے متعلق خبروں کو مبالغہ آرائی دے رہے ہیں۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا کوئی نیا معاہدہ زیرغور نہیں ہے۔ اب تک جنگ بندی کا وہی معاہدہ چل رہا ہے جو ایک سال پہلے مصری حکومت کی ثالثی سے طے پایا تھا۔ تاہم غزہ کی پٹی میں طویل جنگ بندی سے متعلق کوئی بھی بات چیت کی جاسکتی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین