اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کےرکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کی طرف داری اور مسلح تحریک مزاحمت کی حمایت سنہ1948ء کے بعد سے اب تک مصر کی قومی سلامتی کی بنیادی ضرورت رہی ہے، اسے اب بھی برقرار رہنا چاہیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائیٹ”فیس بک” کے اپنے خصوصی صفحے پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں ڈاکٹرمرزوق نے کہا کہ "انہیں ایک مصری ٹیلی ویژن چینل کے ایک میزبان کی زبان سے یہ سن کر دُکھ ہوا جس میں انہوں نے مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی سے کہا ہے کہ وہ غزہ سے ملحقہ رفح بارڈر بند کر دیں، مصر میں موجود تمام فلسطینیوں کوگرفتارکر لیں، معزول صدر محمد مرسی کے دور حکومت میں مصری شہریت حاصل کرنے والے فلسطینیوں کی شہریت ختم کر دیں اور فلسطینی مریضوں کو ملک میں داخلے سے روک دیں”۔
حماس رہ نما کاکہنا تھا کہ مصرمیں معزول صدر محمد مرسی کے دور میں بہت کم فلسطینیوں نے مصرکی شہریت حاصل کی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا مصری حکومت اپنے ہاں موجود ہزاروں فلسطینیوں سے اپنی جیلیں بھرے گی تو اس سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟۔ رہی رفح بارڈر کی بندش تو تین جولائی 2013ء کے اقدام کے بعد کسی ایمرجنسی انسانی نوعیت کے کیس کے سوا رفح بارڈر کھولی ہی نہیں گئی ہے۔
انہوں نے مصری ٹیلی ویژن اینکرکی جانب سے غزہ کی پٹی پر بمباری کے مطالبے کو مضحکہ خیز قرار دیتےہوئے کہا کہ "غزہ کی پٹی پہلے ہی ایک مقبوضہ علاقہ ہے۔ میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ مصری فوج غزہ میں نہتے بچوں پر بمباری کرے گی یا قابض اسرائیل پر کے خلاف کارروائی کرے گی؟۔ مصری صحافی کے انداز کلام سے فلسطینی قوم کو دلی صدمہ پہنچا ہے۔ مصرمیں ان دنوں فلسطینیوں کے خلاف جو زبان اور لب ولہجہ استعمال کیا جا رہا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین