اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے پانچ جون سنہ 1967 ء کو مغربی کنارے اور بیت المقدس سے ہزاروں کو جبرا بے دخل کیے جانے کی واقعے کی یاد میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کا "حق واپسی” اٹل ہے اور فلسطینی قوم اس حق کےحصول کے لیے مزاحمت جاری رکھے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی شعبہ امورمہاجرین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967 ء اور 1948 ء کی جنگوں میں بے گھرکیے گئے فلسطینیوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاجاسکتا۔ یہ فرق صرف فلسطینی اتھارٹی کے مذاکراتی گروپ کی اختراع ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ فلسطینی قوم کا حق واپسی کا مطالبہ مزید شدت اختیار کرے گا۔
خیال رہے کہ سنہ 1967 ء کی چھ روزہ عرب ، اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر ناجائز تسلط جمانے کے ساتھ ساتھ وہاں سے ہزاروں فلسطینیوں کوبندوق کی نوک پربے دخل کردیا تھا۔ فلسطینی صہیونی فوج کی اس جارحیت کو”نکسہ” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967 ء کی جنگ عرب اقوام کی کمزوری کا بین ثبوت ہے کیونکہ اس جنگ میں عرب ممالک کی صفوں میں تقسیم واضح طورپر دکھائی دے رہی تھی اور اسی تقسیم کے نتیجے میں اسرائیل کو فلسطین سمیت کئی دوسرے عرب ملکوں کے علاقوں پرقبضے کا موقع ملا۔ قابض فوج نے نہ صرف فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پرقبضہ کیا بلکہ شام کے وادی گولان اور مصر کے جزیرہ نما سینا پربھی قبضہ کرلیا گیا۔ اس جنگ میں قابض فوجیوں نے 15 ہزار عرب شہریوں کا قتل عام کیا اور 3 لاکھ 50 ہزار فلسطینی اور ایکھ لاکھ 50 ہزار شامی باشندوں کو ھجرت پرمجبور کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس سنہ 1967 ء اور سنہ 1948 ء کی جنگوں میں گھروں سے نکالے گئے فلسطینیوں کےدرمیان کوئی فرق نہیں کرتی اور تمام فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے جدو جہد جاری رکھے گی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین
