اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے صدر محمودعباس کی جماعت الفتح پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہےکہ فتح ابو مازن کے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے الزام تراشی کی سیاست پر اتر آئی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ قطرکے دارالحکومت دوحہ میں صہیونی حکام اور حماس کےدرمیان خفیہ مذاکرات کے الزام قطعی بے بنیاد ہیں۔ ان الزامات کا مقصد صدرعباس کے حالیہ بنیادی حقوق سے دستبرداریوں کے بعد انہیں عوامی رد عمل سے بچانے کی فتح کی ناکام کوشش ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ایک تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے کسی لیڈرکی دوحہ میں صہیونیوں سے کوئی بات چیت ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ فتح کی طرف سے باربار اس طرح کےالزامات اس لیےعائد کیے جا رہے ہیں کیونکہ فتح خود صدر محمود عباس کے تازہ بیانات کے بعد عوامی سطح پر سخت رد عمل کا سامنا کررہی ہے لیکن عوامی تنقید کا رخ موڑنے کے لیے حماس کےخلاف الزام تراشی پر اتر آئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ایک تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے کسی لیڈرکی دوحہ میں صہیونیوں سے کوئی بات چیت ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگی۔ فتح کی طرف سے باربار اس طرح کےالزامات اس لیےعائد کیے جا رہے ہیں کیونکہ فتح خود صدر محمود عباس کے تازہ بیانات کے بعد عوامی سطح پر سخت رد عمل کا سامنا کررہی ہے لیکن عوامی تنقید کا رخ موڑنے کے لیے حماس کےخلاف الزام تراشی پر اتر آئی ہے۔
خیال رہے کہ تحریک الفتح کے ایک ترجمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ حماس کی قیادت نے کچھ عرصہ قبل خلیجی ریاست قطر میں صہونیوں کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات اس لیے کی گئی تھی تاکہ صدر محمود عباس کو فلسطینی ریاست کی مستقل رکنیت کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع سے روکا جا سکے۔
حماس نے فتح کے ترجمان کے بیان کے رد عمل میں اسے صدر عباس کو بچانے کی کوشش قراردیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ فتح کے پاس صدر محمود عباس کو بچانے اور عوامی رد عمل سے محفوظ رکھنےکے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ باقی نہیں رہا ہے، اس لیے اب الزامات کی توپوں کا رخ حماس کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔