(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری جنگ بندی معاہدے کی بحالی سے متعلق مذاکرات کے حوالے سے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ اس دوران، مصری ذرائع نے العربی الجدید کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں امریکی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قاہرہ کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ، جسے 4 مارچ کو عرب لیگ کی ہنگامی سربراہی اجلاس میں منظور کیا گیا، زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے اس مطالبے کو غیر عملی قرار دیا گیا ہے، جو وہ غزہ میں مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے پیش کر رہی تھی۔ امریکی انتظامیہ اب مصری منصوبے میں شامل بعض تجاوز کا مطالعہ کر رہی ہے، جو نہ صرف غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے کچھ مطالبات پورے کرتے ہیں، بلکہ غزہ کے زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔
ایک مصری ذریعے کے مطابق، قاہرہ نے حالیہ دنوں میں امریکی قیادت کو آگاہ کیا ہے کہ یہ غیر منطقی اور غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ ثالثوں یا عرب ممالک پر وہ ذمہ داری ڈالی جائے جو غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل اپنی 15 ماہ طویل جنگی کارروائیوں کے دوران پوری کرنے میں ناکام رہی، جب کہ اسے لامحدود عسکری وسائل میسر تھے۔ مصری ذرائع کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی اس پالیسی کو نافذ کرنا ممکن نہیں، جیسا کہ تل ابیب چاہتی ہے۔
دوسری جانب، امریکی قیادت میں مصری منصوبے کے تحت غزہ کے انتظامی امور کو ایک غیر جانبدار کمیٹی کے ذریعے سنبھالنے کے تصور کو زیادہ قبولیت ملی ہے، جس میں حماس کو انتظامی و سکیورٹی امور سے علیحدہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مصری ذرائع کے مطابق، قاہرہ نے امریکی قیادت کو اس مجوزہ انتظامی کمیٹی کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا ہے، جو غیر سیاسی اور غیر وابستہ افراد پر مشتمل ہوگی۔ قاہرہ نے امریکی قیادت کو ان مذاکرات کے نتائج سے بھی آگاہ کیا ہے، جو حماس کے ساتھ حالیہ دنوں میں کیے گئے۔ ان مذاکرات میں حماس کی قیادت اس بات پر متفق ہوئی کہ وہ اس عبوری انتظامی کمیٹی کے کام کو قبول کرے گی، اور سکیورٹی امور میں بھی اس کی شمولیت کی اجازت دے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر اور اردن اس وقت غزہ میں ایک غیر جانبدار پولیس فورس کی تیاری کے لیے افراد کو تربیت دے رہے ہیں، جو اس فورس کا ابتدائی ڈھانچہ تشکیل دے گی۔ اس منصوبے کے تحت غیر جانبدار پولیس فورس غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے سرکاری بیانیے کو تقویت پہنچا سکتی ہے، اور اس کی حکومتی اتحادیوں کو قائل کرنے میں مدد دے سکتی ہے، تاکہ مذاکراتی عمل میں مزید پیش رفت ہو سکے۔
دریں اثنا، امریکی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ واشنگٹن میں بعض پالیسی سازوں نے حماس کی طرف سے طویل المدتی جنگ بندی کی تجویز پر غور شروع کر دیا ہے۔ یہ تجویز اس مفروضے پر مبنی ہے کہ حماس کے ذریعے جنگ بندی کا قیام، غزہ میں جنگ کے خاتمے اور داخلی دباؤ سے نمٹنے میں نیتن یاہو کے لیے ایک ممکنہ راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حماس کے ترجمان جهاد طہ نے کہا کہ ان کی جماعت ثالثوں کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو معاہدے کی دوسری مرحلے میں داخل ہونا چاہیے، تاخیری حربوں سے گریز کرنا چاہیے اور ان معاہدوں پر عملدرآمد کرنا چاہیے جن پر اتفاق ہو چکا ہے۔
جہاد طہ نے عربی نیوز ویب سائٹ العربی الجدید سے گفتگو میں کہا کہ حماس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے اور وہ تمام امور پر لچکدار رویہ اپنانے کے لیے تیار ہے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہوں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ قاہرہ اور دوحہ میں جاری مذاکرات کے نتائج معاہدے کے نفاذ میں معاون ثابت ہوں گے اور غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کو اس پر عملدرآمد کے لیے مجبور کریں گے، تاکہ وہ غزہ پر اپنا غیر قانونی محاصرہ ختم کرے، جو انسانی اور سماجی بحران کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حماس مذاکرات میں اپنے بنیادی اصولوں پر قائم ہے، جن میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کی غزہ سے پسپائی، جنگ بندی، غزہ کی تعمیر نو، اور صیہونی جارحیت کے تباہ کن اثرات کا ازالہ شامل ہیں، جو فلسطینی عوام کے خلاف جنگی جرائم اور مسلسل قتل عام کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔
اس وقت قاہرہ اور دوحہ میں کئی روز سے سیاسی اور سفارتی ملاقاتیں جاری ہیں، جن میں امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی شریک ہیں، تاکہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔