(روزنامہ قدس – آن لائن خبر رساں ادارہ) غاصب اسرائیلی فوج کے ایک سینئر افسر نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر پندرہ ماہ سے جاری جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور متعدد فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ کے مطابق، اسرائیلی ملٹری پولیس نے فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو انسانی ڈھال بنانے کے معاملے پر چھ مختلف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
مذکورہ افسر نے اعتراف کیا کہ "میں نے اپنی زندگی میں بہت سی باتوں کو راز میں رکھا، لیکن یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ غزہ میں فوجی روزانہ کم از کم چھ بار فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملٹری پولیس واقعی سنجیدگی سے تحقیقات کرنا چاہتی ہے، تو اسے کم از کم 2,190 کیسز کھولنے ہوں گے۔
اسرائیلی افسر نے ملٹری پولیس پر الزام لگایا کہ وہ صرف دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے اقدامات کی چھان بین کر رہی ہے، جبکہ حقیقت میں کچھ مخصوص فوجیوں کو "قربانی کا بکرا” بنا کر اصل مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔
قبل ازیں، ہارٹز کی جنوری میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ غاصب اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے رفح میں ایک فلسطینی شہری کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔
تحقیقات کے مطابق، فوجی کارروائیوں کے دوران اسرائیلی اہلکاروں نے شہریوں کو زبردستی عمارتوں کی تلاشی میں شامل کیا، انہیں اپنے ساتھ رکھا اور جونہی ان کی فلسطینی شناخت واضح ہوئی، انہیں گولی مار دی گئی۔
2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران، مختلف ویڈیوز میں یہ مناظر سامنے آئے ہیں کہ غاصب فوج فلسطینی قیدیوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے کپڑے اتار کر انہیں گھروں اور سرنگوں کی تلاشی کے لیے زبردستی استعمال کر رہی ہے، جو کہ ایک سنگین جنگی جرم ہے۔