اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ صدر محمود عباس کےقول وفعل میں کھلا تضاد ہے۔ وہ عالمی فورمز پر کچھ اورکہتے ہیں
فلسطین میں کچھ اور کرتے ہیں۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کےدوران بھی فلسطینی قوم کا عوام کی مرضی کے مطابق مقدمہ لڑنے کے بجائے اپنا مخصوص فلسفہ پیش کیا۔ صدر محمودعباس قوم کے نام پر اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر ابو مرزوق نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پراپنے خصوصی صفحے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر محمود عباس کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل نوازی کا عنصر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہودی آباد کاری پر اپنی برہمی ضرور ظاہر کی لیکن ساتھ ہی اسرائیل سے مذاکرات کا ڈھونگ بھی رچانے کی بات کی اور اقوام متحدہ میں فلسطین کو مستقل رکنیت دلوانے کے بجائے نامکمل رکنیت کی حمایت کی۔ صدر کے یہ تمام ریمارکس قومی ایجنڈے اور عوام کی مرضی کے خلاف ہیں۔
حماس رہ نما نے کہا کہ صدر محمود عباس کے پچھلے سال کے جنرل اسمبلی میں خطاب اور اس سال کی تقریر میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے سال انہوں نے فلسطین کو مستقل رکنیت دلوانی کی بات کی تھی لیکن آج وہ اس پر معذرت خوانہ انداز اپنائے دکھائی دیے ہیں۔ حماس سمیت تمام جماعتوں کا ان سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ قوم کی اجتماعی سوچ کو اپنائیں اور ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کا تحفظ کریں۔
ڈاکٹر ابو مرزوق نے صدر محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی سے اسرائیل سے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اوسلو اور پیریس معاہدے ناکام ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ عالمی برادری کی ضمانت پرجنتے بھی وعدے کیے تھےان میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا ہے۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی معاشی ناکہ بندیوں کے بارے میں محمود عباس کیوں خاموش ہیں۔ ان کا یہودی آباد کاری کی مخالفت کا دعویٰ کہا رہ گیا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین