اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس نے امریکی صدر براک اوباما، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور فتح کے رہ نما محمود عباس کے درمیان سہ فریقی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سمٹ کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل نے سمیٹا ہے۔
حماس نے ایک بیان میں محمود عباس اور اوسلو معاہدے کی پیداوار دوسری فلسطینی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ صہیونی دشمن کے ساتھ لا یعنی مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر فلسطینی عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ ختم کریں۔ بیان کے مطابق سہ فریقی سمٹ کے نتائج کی روشنی میں نیتن یاہو حکومت ہی کامیاب دکھائی دیتی ہے کیونکہ اسے وہ سب کچھ دے دیا گیا ہے جو وہ عرب علاقوں میں یہودی آباد کاری کے منصوبے جاری رکھ کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان مذاکرات میں سب سے زیادہ نقصان محمود عباس اور اوسلو ٹیم ہی ہے کیونکہ انہوں نے اسرائیل کو اس کے تمام انسانیت سوز مظالم سے برئیت کا کھلا چیک پیش کر دیا ہے۔ ان جرائم میں آخری جرم، غزہ پر ہولناک جنگ مسلط کرنا تھا۔ انہوں نے مذاکرات میں غیر مشروط شرکت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ یہاں یہودی آبادکاری رکوانے میں ناکام ہیں۔ بیان میں فلسطینیوں کے حقوق کی قیمت پر براک اوباما کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ کا اسرائیل کی طرف جھکاو پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ اس ملاقات میں مسٹر اوباما نے اپنے سابقہ موقف سے پلٹا کھایا ہے کیونکہ انہوں نے نیتن یاہو سے یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے کے بجائے انہوں نے انہیں کنڑول کرنے کا لفظ استعمال کیا ہے۔ نیز انہوں نے غیر مشروط طور پر مذاکرات شروع کرنے کا کہہ کر اسرائیلی موقف کی حمایت ہی کی ہے۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا براک اوباما کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کو دو طرفہ مذاکرات کی دعوت بھی امریکی انتظامیہ کے اپنے مسلمہ موقف سے پہلو تہی ہے کیونکہ ماضی میں تمام عرب ملکوں سے جامع مذاکرات کی بات کی جاتی رہی ہے مگر اب ان عرب ملکوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ فری فنڈ میں اسرائیل سے اپنے تعلقات نارمل کریں تاکہ امن عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اسلامی تحریک مزاحمت نے براک اوباما پر اپنے تمام موقف پر یو ٹرن لینے کا الزام عائد کیا ہے اور مسئلے کے حل کے لئے اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔