(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ) دوحہ میں حماس کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل نے اپنے اعلیٰ سطحی وفد کو قطری دارالحکومت سے واپس بلا لیا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق کسی قابل قبول معاہدے تک نہ پہنچ پانے پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ چینل 13 کی رپورٹ کے مطابق، صرف ایک درمیانی سطح کی ٹیم کو وہاں رکھا گیا ہے جبکہ باقی تمام سینئر اہلکاروں کو واپس بلا لیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں مذاکرات کی پیشرفت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ "اگر عارضی جنگ بندی کا موقع ملا تو ہم تیار ہیں،” تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ پر غیر قانونی صیہونی ریاست کے فوجی آپریشن کا اختتام مکمل کنٹرول، حماس کی عسکری صلاحیت کی مکمل تباہی اور تمام قیدیوں کی واپسی سے مشروط ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ کا مکمل علاقہ صیہونی سکیورٹی کے ماتحت آ جائے گا۔
ادھر عبرانی ویب سائٹ Ynet کے مطابق، غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس نے امریکی تجویز پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا جسے اسرائیل قبول کر چکا تھا، اسی لیے وفد کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر حالات بدلتے ہیں اور حماس اس تجویز کو قبول کرتی ہے تو وفد کو دوبارہ بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم، حماس کے مطابق، اسرائیلی وفد نے کئی روز سے کسی بامعنی مذاکرات میں شرکت نہیں کی۔
غزہ کے قیدیوں کے اہل خانہ کے فورم نے اسرائیلی حکومت کو مسلسل ناکامی اور قیدیوں کی بازیابی میں تاخیر کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ فورم نے کہا کہ حکومت کی ہٹ دھرمی نہ صرف مغوی افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے بلکہ اسرائیل کو سیاسی تنہائی، بھاری جانی و مالی نقصان اور عالمی سطح پر ناکامی سے دوچار کر رہی ہے۔ فورم نے زور دیا کہ معاہدہ طویل عرصے سے موجود ہے، عوامی اکثریت بھی اس کی حمایت کر رہی ہے، لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ اس موقع کو ضائع نہ کیا جائے اور تمام قیدیوں کی رہائی کے ساتھ غیر قانونی صیہونی ریاست اس جنگ سے نکلنے کا راستہ اپنائے۔