مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق مصری تجزیہ نگار اور ‘صہیونی مخالف مصری’ تحریک کے بانی محمد سیف الدولہ نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ قاہرہ کی عدالت کا حماس کے بارے میں فیصلہ مصری عوام اور پوری عرب دنیا کے ضمیر کے خلاف ہے۔ حتیٰ کہ مصر کا وہ طبقہ جو اسلامی تنظٰیموں کے بھی سخت خلاف ہے عدالت کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد سیف الدولہ کا کہنا تھا کہ مصر کی عدالتی تاریخ میں حماس کے بارے میں اس نوعیت کا پہلے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی عدالت نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد کئی بار حماس اور مصر کےدرمیان کشیدگی پیدا ہوئی مگر کبھی بھی کسی حکومت یا عدالت کی طرف سے حماس پر پابندیاں عاید نہیں کی گئی ہیں۔
قومی اصولوں سے کھلا انحراف
ایک سوال کے جواب میں سیف الدولہ کا کہنا تھا کہ مصری عدالت کا فیصلہ صہیونیوں کے فلسطینیوں کے بارے میں موقف کو تقویت تو دے سکتا ہے لیکن اسے مصری قوم کی ترجمانی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ یہ مصرکی عدالت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کیونکہ اس فیصلے میں مصر کی تاریخی روایات اور مسلمہ اصولوں سے کھلا انحراف کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں مصر کی عدالتیں صہیونی ریاست کے ساتھ حکومتوں کی قربت اور اس کےنتائج پر خبردار کرتی رہی ہیں لیکن کبھی بھی اسرائیل کی حمایت میں فیصلہ نہیں دیا گیا۔ مصر ہی کی عدالتوں نے اسرائیل کو گیس کی فروخت پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مصری عدالت کے فیصلے نے مصر کی پالیسی کو الٹ کردیا ہے۔ اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصر کا اگر کوئی دیرینہ دشمن ہے تو وہ فلسطینی اور حماس ہے جبکہ اسرائیل اور صہیونی مصری قوم کے ہمدرد اور غم گسار ہیں۔ سیف الدولہ کا کہنا تھا کہ مصری عدالت نے حماس کو دہشت گرد قرار دے کر اسرائیل کے فلسطین، لبنان اور شام میں جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ایک سفاک اور ظالم ریاست کو بچانے کی راہ اختیار کر کے مصر کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے سے مسلم امہ بالخصوص عرب دنیا میں اتحاد اور مفاہمت کی مساعی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین