اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر فلسطین میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” پر مشتمل قومی حکومت کے قیام کی شدید مخالف کی ہے۔ اسرائیلی وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین کا کہنا ہے کہ فلسطین میں حماس پر مشتمل قومی حکومت اسرائیل سے کسی حسن سلوک کی توقع نہ رکھے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی انتہا پسند وزیرخارجہ لائبرمین نے سلامتی کونسل میں مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں کہا کہ قطر کی میزبانی میں صدر محمود عباس اور حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کے درمیان قومی حکومت کے قیام کا سمجھوتہ اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل ایسی کسی فلسطینی حکومت کو نہ تو تسلیم کرے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کیا جائے گا جس میں حماس کے ارکان کو بھی شامل کیا جائے گا۔
صہیونی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ حماس کے بارے میں ان کے ملک کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حماس پہلے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند کرے۔ امریکا، یورپی یونین، روس اور اقوام متحدہ پر مشتمل گروپ چار کی شرائط کی پابندی کرے اور اس کے بعد اسے فلسطین کی قومی حکومت میں شامل کیے جانے کے بارے میں غور کیا جاسکتا ہے۔
آوی گیڈور کہہ رہے کہ دوحہ سمجھوتہ فلسطینیوں کے مفاد میں نہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ خطے میں قیام امن کے لیے سنجیدہ ہیں یا حماس کے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ دوحہ میں حماس ۔ فتح قومی حکومتی سمجھوتہ مشرق وسطیٰ میں امن کےلیے جاری عالمی کوششوں میں رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔
ایران کے بارے میں اپنے روایتی حریفانہ اور سازشی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے لائبرمین نے ایران کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف کارروائی میں تاخیر نقصان دہ ہو گی اور عالمی برادری کو اس تاخیر کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔