امریکا میں انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹرکے زیراہتمام عالمی ہیلتھ پالیسی کی جانب سے فلسطین میں صحت کے بحران کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔
امریکی ادارے کی اس رپورٹ میں محصور فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حماس نے حسن انتظام سے غزہ کی پٹی میں صحت کے سنگین بحران پرقابو پالیا ہے۔ یہ بات امریکن ہیلتھ سینٹر کے پچاسویں یوم تاسیس کے موقع پرجاری ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں جس طرح کے حالات ہیں ان کے پیش نظر شہریوں کو صحت کے سنگین بحران کا سامنا ہوسکتا تھا تاہم حماس کی حکومت بالخصوص وزارت صحت کی "گڈ گورنس” کی بدولت غزہ میں صحت کا بحران پیدا نہیں ہونے دیا۔ اگرحالات خراب بھی ہوئے تو حکومت نے ان پرقابو پالیا۔
امریکی تزویراتی تحقیقات سے متعلق امریکی تھینک ٹینک کی یہ رپورٹ مشہور امریکی دانشور”حائیم ملکا” نے تیار کی ہے جسے حماس کے "زیرانتظام سنہ 2012ء کا ہیلتھ سیکٹر” کا نام دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں گذشتہ پانچ سال کے دوران غزہ کی پٹی میں حماس کی جانب سے شروع کیے گئے صحت کے منصوبوں اور ہیلتھ اسکیموں کا ایک جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حماس کی حکومت نے کم وسائل کے باوجود شہرمیں نہ صرف صحت کا بحران پیدا نہیں ہونے دیا بلکہ کئی نئے اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کیں۔ شہریوں کو جنگی بنیادوں پر ادویات اور طبی سامان فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وزارت صحت کے ہزاروں ملازمین کے لیے لاکھوں ڈالرز کی ماہانہ تنخواہوں کا بھی بغیرکسی تعطل کے انتظام کیا جاتا رہا، جس پرحماس کی حکومت کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں حماس کے زیرانتظام غزہ کی پٹی اور صدر محمود عباس کے زیرانتظام مقبوضہ مغربی کنارے میں ہیلتھ کے شعبے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا ایک تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بجا طورپر کہا گیا ہے کہ فتح کی حکومت نے مغربی کنارے میں اپنے تئیں صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کی ہے تاہم فتح کے صحت کے منصوبے حماس کی اسکیموں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ فتح کے پاس ہرقسم کے فنڈز بھی تھے اور اسے عالمی برادری کی جانب سے بلا روک ٹوک مدد حاصل تھی جب کہ اس کی ہم عصر حماس مالیاتی اعتبارسے سنگین نوعیت کے بحران کا شکار رہی۔
رپورٹ کے مطابق حماس نے غزہ کی پٹی جیسے جنگ سے تباہ حال شہرمیں صحت کے شعبے کی ازسر نو تشکیل کی۔ اس کا نیا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا۔ خواتین، بچوں اور امراض بالغاں کے لیے الگ الگ تشخیصی مرکز قائم کیے گئے۔ شہرمیں فوری طبی امداد کا نظام متعارف کرایا گیا۔
نئے اسپتال اور ڈسپنسریاں قائم کی گئیں اور ان میں ادویات کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ سنہ 2006ء میں جب حماس نے حکومت سنھبالی تو شہر کے تمام اسپتالوں میں مریضوں کے لیے کل 1500 بیڈ تھے۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں حماس نے ان کی تعداد کو بڑھا کر دو ہزار تک پہنچا دیا۔
ایمرجنسی کے شعبے میں مجموعی طورپر30 بیڈ تھے، جن کی تعداد تین گنا بڑھا دی گئی۔ اس کے علاوہ نئے ڈاکٹروں اور نرسوں کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ چار سال میں حماس نے غزہ کی پٹی میں 260 نئے ڈاکٹرز بھرتی کیے۔
خیال رہے کہ حماس نے سنہ 2006ء میں غزہ کی پٹی میں حکومت سنھبالی تھی۔ ان پانچ سال کے عرصے نے اسرائیل نے شہرکی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 2008ء میں اسرائیل نے بائیس روز تک شہرپرآگ اور بارود کی بارش برسا کرغزہ کا انفرااسٹرکچر بری طرح تباہ کردیا تھا۔ سرحد کی تین اطراف میں اسرائیلی فوج کی نگرانی ہے اور ایک جانب مصرکی سابق حکومت نے بھی اہالیان غزہ کو مشکلات سے دوچار کیے رکھا۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود حماس کی حکومت نے غزہ کے شہریوں کی کئی بحرانوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی امریکی ادارے کی جانب سے حماس کی تعریف امریکی ارباب اختیار کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے جو مسلسل یہ راگ آلاپتے رہتے ہیں کہ حماس ایک "دہشت گرد” تنظیم ہے اور اس کا شہریوں کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین