مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق استنبول میں ایک میڈیا فورم پر اظہار خیال کرتے ہوئے حماس کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے فلسطین کی موجودہ صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ حماس مصر کے ساتھ تصادم سے گریز کےایجنڈے پر قائم ہے اور مستقبل قریب بعید میں کسی قسم کی کمشکش دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصر کی عدالت کی جانب سے حماس اور جماعت کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کو دہشت گرد گروپ قرار دینا مصری عدالت کے المیے کو ظاہر کرتا ہے۔اس المیے کا تعلق مصر کے ساتھ ہے حماس کے ساتھ ہرگز نہیں ہے۔ حماس کو دہشت گرد قرار دینے سے مصر کی کوئی خدمت نہیں ہو گی اور نہ ہی قاہرہ کی اندرونی مشکلات میں کوئی کمی آئے گی۔ مصر کے اندرونی مسائل کا حل تمام مصری نمائندہ طبقات کو آزادانہ کام کی اجازت دینے میں ہے۔
اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ حماس کو دہشت گرد قرار دینے کے پس پردہ صہیونی لابی کا ہاتھ ہے جو مصر کے بحران کو فلسطینیوں پر تھوپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کو جنگی جرائم کی تنقید سے بچانا ہے۔ اس وقت اسرائیل اور اس کے چند حامی ممالک ہی حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دے رہے ہیں۔ مصر کی جانب سے حماس کو دہشت گرد قرار دلوانے کی مذموم مہم کو اسرائیل ہی نے کامیاب کرایا ہے۔
حماس رہ نما نے کہا کہ ان کی جماعت کو کسی عرب ملک کی جانب سے دہشت گرد قرار دینے کا یہ انوکھا فیصلہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مصر کے اندورنی بحران میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ حماس یا کسی بھی فلسطینی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینا صرف اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کسی ملک کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے سے حماس اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ حماس صرف اسرائیل کے خلاف بندوق اٹھائے ہوئے مسلح مزاحمت کی حمایت کررہی ہے۔ کسی دوسرے ملک کے خلاف حماس کا ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصری عدالت کا فیصلہ محض سیاسی نوعیت کا ہے۔ سیاسی پس منظر میں جاری کیے گئے فیصلوں کو عالمی قوانین میں کوئی جگہ نہیں مل پاتی ہے۔
مرمرہ متاثرین کا معاملہ
اسامہ حمدان نے اسرائیل اور ترکی کے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں پر بھی تبصرہ کیا جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سنہ 2010 ء میں غزہ آنے والے ترکی کے بحری جہاز پر حملے کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسامہ حمدان نے کہا کہ ہم نے بھی ذرائع ابلاغ سے یہ سنا ہے کہ اسرائیل نے پیشکش کی ہے کہ اگر ترکی مرمرہ پر حملے کے واقعے کو عالمی عدالت میں نہ اٹھائے تو وہ جہاز میں شہید ہونے والے نو امدادی کارکنوں کے ورثاء اور زخمیوں کو مجموعی طورپر ایک ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کو تیار ہے۔ نیز اسرائیل نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ ترکی کے ساتھ مرمرہ معاہدے کی صورت میں غزہ کی پٹی پرعاید اقتصادی پابندیاں بھی نرم کر دی جائیں گی۔
حماس رہ نما نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے سے بچنے کے لیے اسرائیل اس وقت سخت دبائو میں ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ عالمی عدالت کے قانونی شکنجے سے باہر نکل سکے۔ اس لیے اس نے ایک ارب ڈالر کی غیرمعمولی رقم ادا کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کا محاصرہ نرم کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔ سفارتی میدان میں یہ اسرائیل کی شکست اور ترکی کی غیرمعمولی فتح ہے۔
ایران سے تعلقات
حماس کے اسلامی جمہوریہ ایران کیے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسامہ حمدان کا کہنا تھا کہ حماس نے صرف ایران نہیں بلکہ تمام مسلمان ممالک کے ساتھ یکساں سیاسی تعلقات کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ حتیٰ کہ حماس کے تعلقات اب مغربی دنیا کے ساتھ بھی قائم ہونے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ حماس کے تعلقات کی اساس اس کی جانب سے فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کی حمایت ہے۔ ایران چونکہ فلسطینی عوام کی تحریک آزادی کی غیرمشروط اور بھرپور حمایت کرتا آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے بھی ایران سے کبھی دوری اختیار نہیں کی ہے۔
حماس رہ نما نے تسلیم کیا کہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہونے کے بعد حماس اور تہران کے درمیان تعلقات میں اتار آیا تاہم یہ تعلقات بالکل ختم نہیں ہوئے تھے۔ حماس ایک بار پھر ایران کے ساتھ ماضی جیسے شاندار تعلقات کے قیام کے لیے مساعی جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران شام اور عراق جیسے شورش زدہ ممالک میں بھی امن وامان کے قیام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں ایران کی سیاسی اور سفارتی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین