اسرائیل کے سرکاری سیاسی اور سیکیورٹی حلقوں کی جانب سے فلسطینی شہر غزہ کی پٹی میں حکمراں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کو "طاقتوردشمن” قراردیتے ہوئے
وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا بھی نشانہ بنایا ہے۔ سیاسی اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ انقلاب کے بعد مصر نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلیوں کےہاتھ باندھ دیے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کاروں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کی طاقتور خفیہ ایجنسی "موساد” کے سابق چیف افراہیم لیفی نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی موجودہ حکومتی پالیسیوں کو اسرائیل کے لیے تباہ کن قراردیا۔ اخبارا یدیعوت احرونوت کے مطابق افراہیم لیوی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاھوحماس کی قوت کے سامنے جھک گئے ہیں۔ انہوں نے حماس سے نمٹنے کے بجائے ایک دور کے دشمن ایران پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرکے حماس کو مزید طاقت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ایک سوال کے مطابق صہیونی جنرل کا کہنا تھاکہ مصر میں گذشتہ برس برپا ہونے والے انقلاب کے بعد اسرائیلیوں کے لیے غزہ کی پٹی میں آپریشن مشکل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر کی سابق حکومت دو سال قبل ترکی کے امدادی جہاز پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بارے میں اسرائیل کے موقف کا دفاع کررہی تھی لیکن موجودہ حکومت نے نہ صرف اسرائیل کا دفاع ترک کردیا ہے بلکہ الٹا ترکی کےموقف کی حمایت شروع کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اس سال مزید ایک اور مرمرہ کو اسرائیلی فوج سے پٹوانے کا سوچ رہا ہے۔
موساد کے سابق چیف نے امریکی حکومت کی موجودہ پالیسیوں بالخصوص صدر براک اوباما کی پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہ سابق امریکی صدر جارج بش مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بہتر راستے پر چل رہے تھے لیکن براک اوباما نے اسرائیلی قوم کو مایوس کیا ہے۔ جنرل ھلیوی نے ایران کے جوہری پروگرام سے طاقت کے ذریعے نہ نمٹنے کی امریکی صدر کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین