فلسطین کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” نے ملک کی ایک دوسری بڑی عسکری تنظیم اسلامی جہاد کے ساتھ قربت بڑھانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
حماس کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابوزھری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت اسلامی جہاد کےساتھ تمام قومی معاملات میں اتحاد اور یگانگت کا معاہدہ کرنے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں بدلتے سیاسی منظرنامے کے مسئلہ فلسطین پر براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی انقلابات کے مثبت ثمرات سمیٹنے کے لیے فلسطینی جماعتوں کےدرمیان وحدت حالات کا تقاضا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سامی ابوزھری کا کہنا تھا کہ حماس اوراسلامی جہاد کی قیادت میں دونوں جماعتوں کے مابین وحدت کے لیے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں دونوں جماعتوں کے مابین قربت پیدا کرنے کے مختلف طریقوں اور لائحہ عمل پرغور کیا گیا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ دونوں دینی سیاسی جماعتیں مل کر آگے بڑھنا کی دیرینہ خواہش رکھتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حماس کے ترجمان نے کہا کہ حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اتحاد کے لیے سب سے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ ان کی جماعت نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالم اسلام میں دینی قوتیں کامیابی حاصل کر رہی ہیں۔ حماس اور اسلامی جہاد کی قیادتیں بھی انہیں تجربات سے مستفید ہونے کے لیے باہم متحد ہونا چاہتی ہیں۔
ترجمان کاکہنا تھا کہ حماس اور اسلامی جہاد دونوں کے بنیادی اصول اور منشور وطن کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت ہے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے اس منشور پر پوری طرح عمل درآمد کیا ہے۔