(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دنیا کی مؤثر ریاستوں، عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرلز، افریقی یونین کمیشن اور اقوام متحدہ کو ایک فوری یادداشت ارسال کی ہے جس میں دوحہ میں مذاکراتی وفد پر ہونے والی صہیونی بزدلانہ حملے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
حماس نے اس یادداشت میں قابض اسرائیلی حکومت اور اس کے مجرم وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کو اس بھیانک جرم اور فائر بندی و اسیران کے تبادلے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا مکمل ذمہ دار قرار دیا۔
قیادت کونسل کے سربراہ محمد درویش کی جانب سے بھیجی گئی اس یادداشت میں انکشاف کیا گیا کہ یہ قتل کی کوشش اس وقت کی گئی جب تحریک کے اعلیٰ سطحی وفد( جس میں مذاکراتی ٹیم بھی شامل تھی )قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی سے ملاقات کی اور ایک نئے فائر بندی کے مسودے کی وصولی کے بعد اس پر غور کر رہا تھا۔
جب مذاکراتی وفد اس تجویز پر تبادلہ خیال کے لیے مجتمع تھا اس وقت بزدل دشمن نے اسے نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی۔
نو ستمبر 2025 کی شام قابض اسرائیل کے جنگی جہازوں نے مذاکراتی وفد کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کے گھر کو متعدد میزائلوں سے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ان کے صاحبزادے ہمام، ان کے دفتر کے ڈائریکٹر جہاد لبد، تین محافظ، ایک قطری سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے اور ان کے کئی اہل خانہ زخمی ہوئے تاہم وفد کے تمام اراکین محفوظ رہے۔حماس نے اس حملے کو قطر کی خودمختاری پر کھلا حملہ اور مذاکراتی عمل کی براہ راست توہین قرار دیا۔
یادداشت میں کہا گیا کہ حماس نے اپنے عوام پر جاری نسل کشی اور اجتماعی قتلِ عام کو روکنے کے لیے ہر ممکن لچک دکھائی مگر قابض اسرائیل کی حکومت ہمیشہ معاہدوں کو قتل و غارت اور نئی شرائط کے ذریعے سبوتاژ کرتی رہی ہے ،مذاکرات کو محض وقت حاصل کرنے اور مزید خونریزی کا بہانہ بنارہی ہے۔
یادداشت میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل نے سترہ جنوری 2025 کے معاہدے سے یکسر انحراف کیا اور اس کے بعد مسلسل قتلِ عام، جبری ہجرت اور بھوک مسلط کی گئی حالانکہ حماس نے معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد کیا تھا۔
حماس نے نشاندہی کی کہ جنگی مجرم بنجمن نیتن یاھو کی فاشسٹ حکومت غزہ کی عوام کی نسل کشی اور ان کی جبری بے دخلی کے منصوبے کو آخر تک پہنچانا چاہتی ہے اور اس سے پہلے بھی تحریک کے شہید سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب تحریک نے ایک ثالثی منصوبے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
یادداشت میں اس امر پر زور دیا گیا کہ حماس ایک منتخب قومی آزادی کی تحریک ہے جو فلسطینی عوام کے حقِ آزادی اور استقلال کے لیے کوشاں ہے لہٰذا اس کے رہنماؤں کو فوجی ہدف قرار دینا بین الاقوامی قوانین کی صریح ًخلاف ورزی اور قابض اسرائیل کے جرائم کا جواز بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ متنبہ کیا گیا کہ قابض اسرائیل کی یہ دائیں بازو کی شدت پسند حکومت جو فسطائی اور مذہبی خرافات کی اسیر ہے خطے اور دنیا بھر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دروازے کھول رہی ہے۔
حماس نے عالمی برادری، عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ قابض اسرائیل کے اس جنگی جنون اور فلسطینیوں کی نسل کشی کو فوری طور پر روکنے کے لیے عملی دباؤ ڈالیں اور قابض اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کو بند کروائیں۔
یادداشت میں مزید کہا گیا کہ قابض اسرائیل کو قانون کی پاسداری پر مجبور کیا جائے اور اسے فلسطینی عوام کے جائز حقوق تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ ساتھ ہی حماس نے قابض اسرائیل کے مکمل بائیکاٹ، اس کی سیاسی اور اقتصادی تنہائی اور صہیونی حکومت کے رہنماؤں کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات چلانے پر زور دیا۔
آخر میں حماس نے واضح کیا کہ فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کی جدوجہد زمین کی آزادی، آزاد ریاست کے قیام جس کی دارالحکومت القدس ہو اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔