رپورٹ کے مطابق بیروت میں عرب جنرل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ پہلی تحریک انتفاضہ نے بھی فلسطینیوں کو ایک زندہ قوم کے طورپر متعارف کرایا۔ فلسطینی نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور سیکڑوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید کی شکل میں قربانی پیش کی۔ آج بھی پہلی تحریک انتفاضہ کے دور میں گرفتار کیے گئے فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
دوسری تحریک انتفاضہ کے نتیجے میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے بھاگنا پڑا۔ آج فلسطین میں تیسری تحریک انتفاضہ جاری ہے۔ یہ فلسطین کی آزادی کی فیصلہ کن تحریک ہے۔ اس کا مقصد غزہ غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس سے صہیونی دشمن کو نکال باہر کرنا، دشمن کی جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کی رہائی کرانا اور القدس اور مسجد اقصیٰ کو پنجہ یہود سے آزاد کرانا اورغزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرانا ہے۔ جب تک یہ تمام مقاصد حاصل نہیں ہوجاتے فلسطینی اس وقت تک تحریک جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ تحریک انتفاضہ تمام فلسطینیوں کی ہے۔ لہٰذا تمام فلسطینی قوتیں اپنی صفوں میں اتحادو اتفاق پیدا کرکے تحریک انتفاضہ کو تقویت پہنچائیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ عرب دنیا اور پوری مسلم امہ کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ یہ تحریک اس لیے ایک ھدیہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے مسلم امہ کو یہ جاننے کا موقع ملا ہے کہ فلسطینی کس آہنی عزم کے ساتھ آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ فلسطینیوں کی تحریک کی حمایت ان پر فرض ہے۔