رپورٹ کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار رفح کے مقام پر ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج فلسطینی قوم آزادی کی منزل کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ فلسطینی معاشرہ مزاحمتی معاشرہ بن چکا ہے جس کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورت میں وطن کی آزادی کے لیے مرمٹنے کے جذبات موجود ہیں۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ فلسطین کے گلی کوچے، ایک ایک گھر اور ایک ایک مسجد میں قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ فلسطینی عوام ایمان کے ہتھیار سے لیس ہیں اور مقدس مقامات بالخصوص قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے مرمٹنے کو تیار ہیں۔
اسماعیل ھنیہ نے فلسطین میں دینی مدارس بالخصوص حفظ قرآن کریم کے اداروں کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ غزہ کی پٹی میں حفظ قرآن کے اداروں نے قوم کو قرآن پاک سے مربوط کررکھا ہے۔ دینی مدارس قوم کو قرآن و سنت کے ساتھ جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حماس رہنما نے بیت المقدس کے ان فلسطینی شہریوں کی خدمات کو بھی شاندار خراج تحسین پیش کیا جو قبلہ اوّل کے دفاع کے لیے اپنا وقت اور جان ومال قربان کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صہیونی دشمن نے مسجد اقصیٰ کو مسجد ابراہیمی کی طرح دو حصوں میں تقسیم کرنے کی مذموم سازش تیار کی تھی مگر فلسطینی قوم نے اپنی جان ومال کی قربانیاں دے کر صہیونیوں کی اس مکروہ سازش کو ناکام و نا مراد بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں یکم اکتوبر کے بعد سے جاری تحریک انتفاضہ دفاع قبلہ اوّل کی تحریک ہے اور اس تحریک میں پوری فلسطینی قوم ایک صفحے پر ہے۔ قوم کے جوانوں کی قربانیوں نے مسجد اقصیٰ کو لاحق خطرات دور کردیے ہیں اور صہیونیوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔