مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اس کیس میں حماس اور اخوان کی قیادت پرالزام عاید کیا گیا ہے کہ انہوں نے سنہ 2011ء کے انقلاب کے دوران مصرکی ایک جیل پرحملہ کرکے ہزاروں قیدیوں کے فرار میں مدد فراہم کی تھی جس کے نتیجے میں نہ صرف بڑی تعداد میں قید فرارہوگئے تھے بلکہ ان کے حملے میں متعدد سیکیورٹی اہلکار بھی ہوئے تھے۔ فرار ہونے والوں میں اخوان المسلمون کے رہ نما ڈاکٹر محمد مرسی بھی شامل تھے جو بعد ازاں ملک کے پہلے آئینی اور منتخب صدر بنے لیکن فوج نے ان کے خلاف ایک سال کے اندر اندر بغاوت کردی۔ پھانسی کی سزا میں محمد مرسی، اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت کل 128 ارکان شامل ہیں۔
مصری فوجی عدالت کی جانب سے جس مقدمے کو مفتی اعظم کو بھجوایا گیا ہے اس میں فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ تو جیلوں میں قید ہیں جبکہ کئی شہید ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود مصری عدالت کا ‘اندھا پن’ دیکھئے کہ اس نے شہداءکو بھی معاف نہیںکیا ہے۔ مفتی جمہورہہ کی جانب سے رائے آنے کے بعد عدالت دو جولائی کو پھانسی کی سزا سنا سکتی ہے۔
مصری عدالت کی جانب سے مفتی کو بھجوائے گئے مقدمہ میں قطر کے ممتاز عالم دین اور چیئرمین علماء کونسل علامہ یوسف القرضاوی، مرسی دور کے وزیر اطلاعات صلاح عبدالمقصود، صدارتی اسٹاف کے ممبر محی حامد، لبنانی حزب اللہ کے سامی شہاب اور ایہاب مرسی، حماس کے ایمن نوفل اور محمد الھادی سمیت 75 اہم ارکان کو ماخوذ کیا گیا ہے۔ ان میں پانچ پہلے ہی اسرائیلی جارحیت میں شہید ہوچکے ہیں جب کہ ایک جیل میں قید ہے۔ حماس کے شہید ارکان میں رائد العطار پچھلے سال غزہ کی پٹی پراسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ حسام صانع نامی اسلامی جہاد کے رکن 27 دسمبر 2008ء کو شہید ہوچکے ہیں اور ان کا نام بھی مصری عدالت نے 2011ء میں قاہرہ میں جیل توڑنے والوں میں شامل کر رکھا ہے۔ حالانکہ اس وقت انہیں شہید ہوئے تین سال گذر گئے تھے۔
القسام کمانڈر تیسیر ابو سنیمہ کو 08 اپریل 2011ء کو صہیونی فوجیوںنے شہید کیا۔ وہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے فیلڈ کمانڈر تھے اورغزہ سے باہر گئے ہی نہیں۔
اس کے علاوہ محمد سمیر ابو لبدہ 2005ء اور محمد خلیل ابو شاویش 2007ء میں انتقال کرچکے ہیں اور مصری عدالت کا کہنا ہے کہ وہ بھی جیل توڑنے والوں میں شامل تھے۔ اس سے مصری عدالت کےفیصلے کے جعلی پن اور غیرمنصفانہ ہونے کا صاف اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مصری عدالت نے اسرائیل کی ایک جیل میں سنہ 1996ء سے پابند سلاسل حسن سلامہ کو بھی جیل توڑنے کے الزام میں ماخوذ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ پچھلے کئی سال سے جیل میں قید ہیں۔ بھلا ایک قیدی کس طرح مصرجا کر جیل توڑنے میں مدد کرسکتا ہے۔حسن سلامہ کے بھائی اکرم سلامہ نے بتایا کہ اس کے بھائی پرمصرمیں جیل توڑنے میں معاونت کا الزام جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اس کا بھائی 2011ء میں اس وقت بھی اسرائیلی جیل میں قید تھا جب مصرنے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی ایک ڈیل کرائی تھی جس میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ایک ہزار پچاس فلسطینیوں کو رہائی ملی تھی۔ کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح رہائی پانے والوں کی فہرست میں حسن سلامہ کا نام بھی شامل کیاجاسکے مگر اسرائیل نے اسے رہاکرنے سے انکار کردیا تھا۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین
