مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایمنسٹی اسرائیل کی ترجمانی نہ کرے۔ اگر وہ انصاف کے مطابق تحقیقات نہیں کرسکتی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں وہ اسرائیل کی طرف داری شروع کردے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کی جانب سے اسرائیلی فوج پر داغے جانے والے راکٹوں کو جنگی جرائم میں شامل کرنا غیر منصفانہ اور ظالم اور مظلوم میں فرق نہ کرنے کا شاخسانہ ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل یہ بتائے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے جنگ کے دوران اسرائیلی پرداغے گئے راکٹوں سے کتنے اسرائیلی بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے ہرحملے میں معصوم فلسطینی بچے، خواتین اور بوڑھے شہید ہوتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں کو جنگی جرائم میں شامل کرنے کا کیا جواز ہے؟۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی’’قدس پریس‘‘ نے حماس رہ نما اسماعیل رضوان کا ایک بیان بھی نقل کیا ہے جس میں انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پرتبصرہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل نوازی پرمبنی قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی نے رپورٹ کی تیاری میں جانب داری سے کام لیا ہے۔ ظالم اور مظلوم میں فرق کرنے کے بجائے اسرائیل کو بچانے کی کوششش کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر گذشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران اسرائیل کی مسلط کی گئی جنگ کے نتیجے میں 2311 فلسطینی شہید اور گیارہ ہزار سے زاید زخمی ہوگئے تھے۔ شہداء اور زخمیوں میں سے 85 فی صد عام شہری ، خواتین اور بچے شامل تھے۔ جبکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں اور جوابی کارروائیوں میں 64 اسرائیلی فوجی ہلاک اور چار سولین مارے گئے تھے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین