(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے سیاسی بیورو کے رکن عزت الرشق نے اس بات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے نیویارک میں بین الاقوامی اعلیٰ کانفرنس برائے مسئلہ فلسطین کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران فلسطینی مزاحمت کی مذمت کی۔
الرشق نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران اپنی ہی قوم کی جدوجہد اور مزاحمت کو نشانہ بنا رہے ہیں جو تاریخ کے بدترین قبضے کے خلاف لڑ رہی ہے۔ وہ قابض فاشسٹ اسرائیل کے مطالبات سے ہم آہنگی دکھاتے ہوئے مزاحمت سے ہتھیار ڈالنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب قابض اسرائیل اور اس کے دہشت گرد آبادکار مغربی کنارے کی بستیوں اور قصبوں کو خون میں نہلا رہے ہیں اور غزہ پر ہماری قوم کی تاریخ کی سب سے خوفناک نسل کشی کی مہم مسلط کر رکھی ہے۔
محمود عباس کے اس مؤقف پر کہ حماس کو غزہ کی حکمرانی میں کوئی کردار نہیں ملنا چاہیے الرشق نے کہا کہ یہ بیرونی دباؤ اور مسلط کردہ ایجنڈے کے سامنے ایک ناقابلِ قبول جھکاؤ ہے۔ یہ قومی داخلی تعلقات کے اصولوں اور قومی مکالمے کے اجلاسوں اور طے شدہ معاہدوں سے انحراف ہے۔ اس سے ہمارے عوام کی آزادانہ مرضی کو پامال کیا جا رہا ہے جو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے اور اپنی قیادت و حکمرانی کا انتخاب کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مایوس کن پالیسی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب صدر عباس کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے مقام تک پہنچنے سے روکا گیا۔ ساتھ ہی قابض اسرائیل کی کھلی پالیسیاں اس حقیقت کو مزید واضح کر رہی ہیں کہ وہ نہ تو فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی اس کی نیت رکھتا ہے۔ بلکہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو کمزور کرنے، غزہ پر مکمل قبضہ جمانے، مغربی کنارے کو ضم کرنے اور القدس پر صہیونی قبضے کے اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔
الرشق نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری فلسطینی عوام اپنی قیادت سے ایسے قومی مؤقف کی توقع رکھتے ہیں جو قابض اسرائیل کی مسلط کردہ گھناؤنی شرائط کو توڑ دے۔ سب سے پہلے بیرونی سرپرستی اور قابض اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کے بندھن کو توڑا جائے اور متحد ہو کر قومی وحدت کے راستے پر چلا جائے تاکہ قابض فاشسٹ دشمن کے خلاف ڈٹ کر آزادی، عزت اور اپنی ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہو حاصل کی جا سکے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ محمود عباس کا بین الاقوامی اعلیٰ کانفرنس برائے مسئلہ فلسطین میں خطاب فلسطینی حلقوں میں شدید تنازع کا باعث بنا ہے۔ اس میں شامل پیغامات کو کئی مبصرین نے چونکا دینے والا قرار دیا۔ ایک طرف عباس نے قابض اسرائیل کو اس کے تہواروں پر مبارکباد پیش کی جبکہ دوسری طرف وہ ایک ایسے وقت میں مزاحمت پر حملہ آور ہوئے جب قابض اسرائیل فلسطینی قوم کے خلاف کھلی اجتماعی نسل کشی کر رہا ہے۔