رپورٹ کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار سنہ 2008 کے اواخر اور 2009 ء کے اوائل میں غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کی یاد میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی دشمن اب غزہ کی پٹی پرحملے کی حماقت نہیں کرے گا کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ فلسطینی مجاھدین کی جرات اور بہادری اس کے تمام مادی عسکری وسائل پر فوقیت رکھتی ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ صہیونی فوج نے سنہ 2008.09 ء اور 2014 ء میں غزہ کی پٹی پر مسلط کہ گئی جنگوں میں دشمن کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ سنہ 2008 ء میں لڑئی گئی جنگ کو فلسطینی مجاھدین کی جانب سے ’’معرکہ فرقان‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حوالے سے اسماعیل ھنیہ نے کہاکہ معرکہ فرقان فلسطینی تحریک آزادی کے باب میں ایک اہم سنگ میل ہے جس نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے عزم، حوصلے اور قوت میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سنہ 2016 ء میں فلسطین کے گلی کوچے میں تحریک مزاحمت اور انتفاضہ چلے گی۔ غرب اردن اور بیت المقدس کے بعد غزہ کی پٹی کے عوام بھی اس جنگ میں بھرپورشرکت کریں گے۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ نے معرکہ فرقہ اور اس کے بعد لڑی گئی تمام جنگجوں میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے ہیں۔ انہوں نے جنگ میں قربانیاں پیش کرنے والے فلسطینی شہریوں کے جذبوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ صہیونی دشمن طاقت کے بل بوتے پرفلسطینی قوم کے حقوق غصب نہیں کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معرکہ فرقان میں اسرائیل کے دیگراہداف میں ایک اہم ہدف مجاھدین کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے گیلاد شالیت کو رہا کرانا تھا مگر دشمن اپنی منصوبہ بندی میں ناکام رہا ہے۔ یہ فلسطینی مجاھدین کی کامیابی ہے کہ انہوں نے جنگی قیدی بنائے گئے گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں ایک ہزار پچاس فلسطینی اسیران کی رہائی کی راہ ہموار کی تھی۔