اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے غزہ کی پٹی میں وسیع البنیاد جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ ثالثوں کی مدد سے بالواسطہ بات چیتکی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ فی الحال فریقین کسی حتمی سمجھوتے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
عرب روزنامہ”العربی الجدید” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ہمیں غزہ میں جنگ بندی اور سیز فائر کے لیے نئی اصطلاحات کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بنیادی ضرورت غزہ کی پٹی کے عوام کے بنیادی مسائل کے حل پرتوجہ دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے ثالثوں کے ساتھ ہونے والے رابطوں میں غزہ کی پٹی کو درپیش پانچ بڑے مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔ ہم غزہ کی پٹی کی تعمیر نو، اسرائیل کی مسلط کردہ پابندیوں کےخاتمے، تمام راہداریوں کو مستقل بنیادوں پر کھولنے، پچاس ہزار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائی کو یقینی بنانے، غزہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈے اور ایک بندر گاہ ک کےقیام کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پانی، بجلی کی فراہمی اور سڑکوں کی تعمیر ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
خالد مشعل نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ، امریکا، یورپی یونین اور روس پرمشتمل گروپ چار کے سبکدوش ہونے والے سربراہ اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئرنے خود بھی غزہ کی پٹی میں سیز فائر کے لیے چند سال تک جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔ ہم نے جواب میں کہاہے کہ ہم جنگ بندی یا سیز فائر جیسے اصطلاحات پریقین نہیں رکھتے اورنہ ہم جنگ چاہتے ہیں۔ فلسطینی عوام کسی پر جنگ مسلط نہیں کررہے ہیں بلکہ مسلح مزاحمت ہمارا بنیادی حق ہے جو قابض اور غاصب ریاست کے خلاف جاری رکھا جائے گا۔ ہماری آزادی کی جدود جہد کو جنگ سے نہ جوڑا جائے۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت غزہ کی پٹی کے عوام کی مشکلات کے حل میں مدد کرنے والوں کے ساتھ ہرممکن تعاون کے لیے تیار ہے مگراس کے لیے ضروری ہے کہ فلسطینیوں کی امداد ہمارے قومی مفادات اورآزادی کے پروگرام کی قیمت پرنہیں ہونے چاہئیں۔ ہمیں انگوروں کی ضروت ہے اس کی بیل کاٹنے کی نہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں عرب اور غیرملکی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ غزہ کی پٹی میں طویل البنیاد جنگ بندی کے لیے بالواسطہ طورپر مذاکرات کررہی ہے اور فریقین حتمی معاہدے تک پہنچنے کے قریب آچکے ہیں تاہم حماس کی جانب سے اسرائیل سے بالواسطہ یا کسی بھی شکل میں مذاکرات کی سختی سے تردید کی تھی۔ اسرائیل کی جانب سے بھی غزہ کی پٹی میں جنگ بندی معاہدے کو وسعت دینے لیے حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی تردید کی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین