اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے نے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر موسی ابو مرزوق نے اپنی تنظیم کے اسرائیلی سیکیورٹی وفد سے بالواسطہ مذاکرات کی خبروں کو بے بیناد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی باتیں اسرائیل کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے لندن سے شائع ہونے والے عرب روزنامے ‘الحیات’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ابو مرزوق نے الحیات کو بتایا کہ اسرائیلی سیکیورٹی کے ایک وفد نے قاہرہ کا دورہ کیا جس میں انہوں نے تل ابیب سے قاہرہ کے ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت کا جائزہ لیا۔
ڈاکٹر مرزوق نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل کے موقع پر اسرائیل سے بالواسطہ مذاکرات کئے تھے۔ اسی ڈیل کے تحت اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے صہیونی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کسی سمت پیش قدمی میں ہمیں کوئی عار نہیں۔ ہم اگر کوئی سیاسی نقطہ نظر اپنائیں گے تو اس کے اعلان میں تامل نہیں کریں گے۔ فلسطینی عوام کے مفادات کا جو بھی تقاضہ ہو گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں حماس کے رہنما نے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان رابطوں یا مذاکرات کے بارے میں قیاس آرائیاں معیبوب بات ہیں۔ یہ باتیں بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں، اس لئے ان سے متعلق کسی قسم کی بات چیت کا کوئی جواز نہیں۔
حماس اور فتح کے درمیان 27 فروری کو ہونے والی ملاقات کے حوالے سے موسی ابو مرزوق نے کہا کہ اس میں فلسطینی حکومت کی تشکیل کے بارے میں بات ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں تحریکوں کے درمیان مذاکرات عوام کے سامنے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ماضی میں دونوں تنظیمیں ایک دوسرے پر ماحول خراب کرنے کےا لزامات کا تبادلہ کرتی چلی آئی ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی حکومت کے سربراہ محمود عباس [ابو مازن] ہوں گے اور اس میں انیس آزاد ٹیکنوکریٹس وزیر ہوں گے۔ یہ حکومت محدود مدت میں طے شدہ امور انجام دے گی۔ ابو مرزوق نے بتایا کہ محمود عباس کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کہا ہم نے حکومت کی مدت تین ماہ رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ہم تمام چیلنجز کے باوجود مصالحت کی جانب پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مصالحت کی تکیمل کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ پار کریں گے۔
حماس کے رہنما نے کہا کہ حکومت کی تین ماہ مدت سے متعلق وہ ذاتی طور پر قانع نہیں کیونکہ انتخابات کی تیاری کے لئے یہ وقت کم ہے اور خاص طور پر ابو مازن یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان انتخابات کے ساتھ حکومت بھی تشکیل دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ اور غرب اردن میں انتخابات کی تیاری کے لئے وقت درکار ہے تاکہ آزاد میڈیا کی موجودگی میں لوگوں کی سیاسی عمل میں بھرپور شرکت یقینی بنائی جا سکے۔
تین ماہ کی حکومت طے شدہ کاموں کی تکمیل کے لئے ناکافی ہے۔ اگر تین ماہ میں یہ کام نہ ہو سکے تو اس حکومت کی مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ یا پھر ہم قومی اتفاق رائے کی حکومت بنا سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں پر اتفاق رائے ہو چکا ہے لیکن اپنے حالیہ اجلاس میں ہم نے اس پر بات نہیں کی۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین