دوحہ سے نشریات پیش کرنے والے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خالد مشعل نے کہا کہ انتفاضہ القدس کے تین اہم اہداف و مقاصد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم اس وقت ایک غاصب ریاست کے ظالمانہ قبضے کے خاتمے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قوم نے حالیہ تحریک سے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینی اپنا خون دیتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرسکتے ہیں مگر صہیونی ریاست کے ساتھ بقائے باہمی کو تسلیم نہیں کرتے، یہودی کالونیوں کےقیام کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ حماس رہ نما نے تمام فلسطینی دھڑوں اور قومی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ تحریک انتفاضہ کے دست و بازو بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم نے تحریک انتفاضہ کے لیے تمام آپشنز استعمال نہیں کیے ہیں۔ فلسطینیوں کے پاس ابھی کئی اور راستے بھی موجود ہیں۔
انتفاضہ کے اھداف
انٹرویو میں خالد مشعل نے تحریک انتفاضہ القدس کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انتفاضہ القدس کے تین اہم مقاصد ہیں۔ انتفاضہ کا پہلا مقصد یہودی شرپسندوں کی کارروائیوں کو نکیل ڈالنا ہے۔ دوسرا مقصد بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونی ریشہ دوانیوں کی روک تھام کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے اندر گھس کر اس کی سلامتی کے مراکز کو نقصان پہنچانا ہے۔ تحریک کا تیسرا مقصد اور ہدف فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز تسلط کو ختم کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ تحریک انتفاضہ محض ایک گروپ یا تنظیم کی جانب سے نہیں بلکہ یہ پوری قومی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنی چاہیے۔ اس کے طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے تمام فلسطینیوں کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انتفاضہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ اسی تحریک کی بدولت صہیونی وزیراعظم کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی زمانی اور مکانی تقسیم کی سازشوں کو روکنے میں مدد ملی ہے۔
حماس رہ نما نے کہا فلسطینی قوم کی آزادی کی جدو جہد کا جوہر اور مزاحمت کی روح موجودہ انتفاضہ عظیمہ میں نمایاں طورپر دیکھی جا رہی ہے۔ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت فلسطینیوں کی موجودہ تحریک کے چرچے ہیں۔
تمام فلسطینی انتفاضہ کے دست وبازو بن جائیں
حماس رہ نما نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ اس وقت تحریک انتفاضہ کے باب میں پوری قوم ایک صفحے پرہے مگر ضروری ہے کہ فلسطین کے تمام ادارے، تمام سیاسی، مذہبی اور عسکری جماعتیں حتیٰ کہ فلسطین کے سیکیورٹی ادارے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے حصے کا کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں بعض حلقوں کی جانب سے تحریک انتفاضہ کی کھل کرحمایت سے گریز کی مثالیں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اس وقت تحریک کو کامیاب اور منطقی انجام تک پہنچنانے کے لیے تمام فلسطینی قیادت کو ایک موقف پر مجتمع ہونے کی ضرورت ہے۔
خالد مشعل نے صدر محمود عباس کی جماعت تحریک فتح پر زور دیا کہ وہ دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ مل کر تحریک انتفاضہ کو آگے بڑھائے۔ تحریک انتفاضہ کو فلسطینی اتھارٹی کے خلاف نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے حقیقی اہداف ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کامیاب کرنے کے لیے تمام فلسطینی اپنا حصہ ڈالیں۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ میں نے صدر محمود عباس سمیت تمام فلسطینی قوتوں کی نمائںدہ قیادت سے تحریک انتفاضہ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ میں نے سب پر واضح کیا یے کہ فلسطینی اس وقت فیصلہ کن موڑ سے گذر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں تحریک انتفاضہ کو کامیاب بنانے کے لیے تمام جماعتوں کی قیادت کی طرف سے کھل کر اس کی حمایت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 60 ایام میں فلسطینیوں نے 180 مزاحمتی کارروائیوں کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جان کیری کی دروغ گوئی
خالد مشعل نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے اس بیان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ فلسطینی انتفاضہ رام اللہ اتھارٹی کو ختم کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ خالد مشعل نے کہا کہ تحریک انتفاضہ فلسطینی اتھارٹی کے خلاف نہیں بلکہ صہیونی ریاست کے مظالم اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطین کی قومی تحریک ہے۔ جان کیری کا یہ بیان صریح جھوٹ ہے کہ تحریک انتفاضہ سے فلسطینی اتھارٹی ختم ہوسکتی ہے۔ تحریک انتفاضہ شروع ہونے کے بعد جان کیری دو مرتبہ فلسطین کے دورے پرآئے اورانہوں نے تحریک کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ عالمی برادری کے ذریعے بھی فلسطینیوں پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر فلسطینی قوم نے جان کیری کے دبائو کو یکسر مسترد کردیا۔
خالد مشعل نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کبھی امریکا اور کبھی کسی دوسرے ملک کے دبائو کے تحت اسرائیل کے ساتھ بار بارنام نہاد امن مذاکرات کے ڈھونگ رچاتی رہی ہے مگر آج تک ایک بار بھی مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ دوسری جانب فلسطینیوں کی عوامی مزاحمتی تحریک نے ایریل شیرون کو غزہ کی پٹی سے نکال باہر کیا تھا۔
قومی مفاہمت پرزور
خالد مشعل نے اپنے انٹرویو میں فلسطینیوں کے درمیان اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ مصالحت اور مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ تمام فلسطینی قوتیں قومی امورمیں مل کرکام کریں۔ کسی گروپ یا جماعت کو قومی نوعیت کے امورسے دور نہ رکھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم قومی وحدت اور مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین میں ایک اتھارٹی ہو۔ ایک حکومت قائم کی جائے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ایک ہی جگہ ہو اور ہم امن اور جنگ کے فیصلے مل کریں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے علاقے کے بارے میں یہ خیال نہ کیا جائے اسے حماس کے ہاں گروی رکھ دیا گیا ہے۔ غزہ کی پٹی کے تمام مسائل کے حل کی ذمہ داری فلسطینی قومی حکومت پرعاید ہوتی ہے۔
خالد مشعل نے کہا کہ ان کی جماعت گذرگاہوں کے انتظامات کو فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی حکام کے حوالے کرنے کی خواہاں ہے ۔ اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی بامقصد بات چیت کا خیرمقدم کیا جائے گا اورحماس گذرگاہوں کے معاملات کی نگرانی فلسطینی اتھارٹی کو سپرد کرنے کا خیر مقدم کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں قومی مفاہمت کے حوالے سے سعودی عرب کی ثالثی کے تحت طے پائے سمجھوتوں پرعمل درآمد کی ضرورت ہے۔ حماس غزہ کی پٹی، غرب اردن ، اندرون اور بیرون ملک قومی مفاہمت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کے سدباب کےلیے تیار ہے۔