مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی ضلعی حکومت اور وزارت داخلہ کے زیرانتظام القدس شہر میں یہودیوں کے لیے ساٹھ ہزار نئے گھر تعمیرکرنے کے ایک نئے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ انکشاف مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی و مسیحی کمیٹی کی جانب سے کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حسن خاطرنے میڈیا کے نام جاری ایک بیان میں بتایا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے ہاں زیرغور مقبوضہ بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کا یہ خطرناک منصوبہ ہے، کیونکہ اس اسکیم کی تکمیل کی صورت میں مقبوضہ بیت المقدس کی تہذیبی اور اسلامی شناخت مسخ ہو کر رہ جائے گی۔
ڈاکٹر خاطر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں اس وقت فلسطینیوں کے ملکیتی مکانات کی تعداد 60 ہزار ہے جن میں سے 25 فی صد کے مالکان کو مکانات خالی کرنے اور انہیں مسمار کرنے کے نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں۔ یوں دوسرے معنوں میں صہیونی حکومت فلسطینیوں کے کل موجود مکانات کی تعداد کے مساوی یہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیرکرنا چاہتا ہے تاکہ شہر میں آبادی کا توازن بگاڑ کر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی حکومت نے سنہ 1948ء کے بعد سے 1967ء تک مقبوضہ بیت المقدس میں کم سے کم ایک لاکھ 30 ہزار مکانات یہودیوں کے لیے تعمیر کیے ہیں۔
فلسطینی عہدیدار کا کہنا تھا کہ صہیونی ضلعی بلدیہ نے مقبوضہ بیت المقدس کے لیے سال 2012ء کے لیے جو بجٹ مختص کیا ہے ایک ارب 25 کروڑ ڈالرز ہے، اس بجٹ میں مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ رکھا گیا ہے۔