فلسطین کی سب سے بڑی سیاسی اور مزاحمتی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کی چوبیسویں سالگرہ کی تیاریاں جاری ہیں۔ حماس کی سالگرہ اس مرتبہ ایک ایسے وقت میں آرہی ہے جب عرب دنیا میں انقلابات کی لہر جاری ہے۔
تیونس اور مصر کے انتخابات میں اسلامی پارٹیاں کامیابیاں حاصل کر چکی ہیں۔ 1987ء میں بننے والی اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے قیام کا مقصد بھی اسرائیلی زیر تسلط اراضی، مغربی کنارے اور غزہ پرمشتمل اسلامی فلسطینی ریاست کا قیام اور دیگر ممالک میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی ہی تھا۔
جنوری 2006ء کے عام فلسطینی انتخابات میں حماس 75 نشستیں حاصل کرکے فتح کے مقابلے میں فیصلہ کن برتری حاصل کر چکی ہے، ان انتخابات میں فتح کو صرف 45 نشستیں ہی حاصل ہو سکی تھیں۔ ان انتخابات کے بعد جمہوریت کی علمبردار عالمی قوتوں نے فلسطین کی مالی امداد بند کرکے اپنے جمہوریت پسندی کی قلعی کھول دی تھی۔
امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین کی جانب سے برتے گئے تعصب کی بنا پر حماس مغربی کنارے اور غزہ کی اپنی متحدہ حکومت برقرار نہ رکھ سکی۔ اس سال تیونس اور مصر میں بھی اسلامی جماعتیں جمہوری عمل میں شریک ہوکر کامیابی حاصل کر چکی ہیں۔ جس کے مثبت اثرات فلسطین کی آزادی کے لیے کوشاں حماس کی جدوجہد پر بھی ہونگے۔
مثبت اثرات
حماس کے معروف رہنما ڈاکٹر صلاح بردویل کا کہنا ہے کہ عرب ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کے مسئلہ فلسطین پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ڈاکٹر بردویل نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک میں ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی حلقے خفیہ کام کر رہے تھے تاہم جیسے ہی ان ممالک سے استبدادی نظاموں کا خاتمہ ہوا سیاسی جماعتوں نے کامیابی حاصل کرنا شروع کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی جماعتوں کی کامیابی کے بعد ان ممالک کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔
امت مسلمہ میں بیداری کی لہر
معروف تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے خیال میں ایک جانب عرب انقلابات کے مثبت اثرات فلسطین پر پڑیں گے تو یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ ان ممالک میں بیداری کی لہر میں حماس کا بھی بڑا کردار ہے۔ مسئلہ فلسطین کے ماہر مبصرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین اور حماس کی آہنی ثابت قدمی نے امت مسلمہ کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر بردویل کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے یہ بڑی فخر کی بات ہے کہ ہم نے ظالمانہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے حوالے سے عرب قوموں میں چنگاری کا کردار ادا کیا۔
خوشگوار مستقبل
جبر و استبداد کی نئی اسرائیلی تاریخ کے باوجود حماس کی چوبیس سالہ بے مثال ثابت قدمی نے یہ امید پیدا کردی ہے کہ فلسطینی قوم کا مستقبل خوشگوار ہے۔
اس ضمن میں نجاح یونیورسٹی میں سیاسیات کے معروف استاد اور حماس کے بڑے رہنما ڈاکٹر عبد الستار قاسم نے ’’ مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ سے اپنی گفتگو میں بتایا کہ عرب ممالک میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی اور حکومت میں شمولیت کے بعد ان ممالک کے حماس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی کیونکہ اس وقت فلسطین میں سب سے بڑی اسلامی جماعت حماس ہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمسایہ عرب ممالک میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی کے نہ صرف حماس اور فلسطینی حلقوں پر مثبت اثرات مرتب ہونگے بلکہ یہ حالات اسرائیل پر بھی براہ راست اثر انداز ہونگے۔ بالخصوص اس وقت جب اسلام کی رو سے ارض مقدسہ پر قابض دشمن کے ساتھ صلح کرنا اسلامی رو سے بھی ناجائز ہے۔