غزہ کی پٹی کے مختلف شہروں پر معصوم لوگوں پر خوفناک گولہ باری کا ارتکاب کرنے والی اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے غزہ کے مزاحمت کاروں کے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے غزہ کے اطراف پانچ کلومیٹر کی حدود میں موجود اپنے تمام اڈوں کو مضبوط کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس نئے منصوبے کے تحت اسرائیل کے ساتھ ملحق غزہ کی چالیس کلومیٹر کے لگ بھگ سرحد کے اطراف موجود یہودی بستیوں کو بھی سیمنٹ اور فولاد کے بلاکوں سے مضبوط بنایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق ٹرکوں پر لدے سیمنٹ اور لوہے سے بنے بلاکوں کی علاقے میں آمد شروع ہو گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی ”قدس پریس” نے بتایا کہ غزہ کی مشرقی جانب کے علاقوں پر نظر رکھنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز اپنے عسکری مراکز کو مضبوط کرنے کے پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ بھاری بھرکم پتھروں سے فوجی اڈوں کو مضبوط تر بنانے کا یہ فیصلہ گزشتہ سال نومبر میں آٹھ روزہ جھڑپوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے ان اڈوں پر کیے جانے والے راکٹ حملوں کے بعد کیا گیا ہے۔
عسکری اڈوں کے اطراف حفاظتی حصار
غزہ کی مشرقی جانے پھیلی اسرائیلی آبادیوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے قریب واقع اپنے فوجی اڈوں کو غزہ کی سرحد کی جانب سے مضبوط کرنا شروع کر دیا ہے۔ غزہ کی چالیس کلومیٹر سرحد کے مشرقی جانب پانچ کلومیٹر تک کی مسافت میں واقع یہودی بستیوں کو بھی کنکریٹ کی فولادی نما دیواروں کے ذریعے محفوظ بنایا جائے گا۔ علاقے کے رہائشیوں نے خبر رساں ایجنسی ”قدس پریس” کو بتایا کہ گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے معرکے کے دوران فلسطینی مزاحمت کاروں نے ان بستیوں اور فوجی اڈوں کو روسی ساختہ کورنٹ راکٹوں سے نشانہ بنایا تھا۔ کورنٹ راکٹ کی طویل ترین رینج پانچ کلومیٹر ہے۔ لہذا اس راکٹ کی رینج میں آنے والی عمارتوں کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ ا ن جھڑپوں کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے برسائے گئے کورنٹ راکٹ صہیونیوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے تھے۔
پرانے محفوظ قلعوں کا خاتمہ
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ اسرائیل نے اپنے اڈوں کو اس طرح مضبوط بنایا ہو، اس سے قبل سال 2009 میں ختم ہونے والی جنگ معرکہ فرقان کے بعد اسرائیل نے اپنی سرحدی آبادیوں اور فوجی اڈوں کو مضبوط بنانے کا کام مکمل کر لیا تھا۔ تاہم 2012 میں ہونے والے معرکے نے ان حفاظتی اقدامات کا پول کھول دیا اور عسکری اڈو ں کی مضبوط کی گئی کی تعمیرات فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں کی تاب نہ لاکر ڈھیڑ ہوتی گئیں۔ غزہ کا غلاف کہلانے جانے والے اس علاقے میں گزشتہ سال نومبر کی جھڑپوں کے دوران بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔
اس جنگ کے دورا ن مزاحمت کاروں کے کامیاب راکٹ حملوں نے صہیونی بری فوج کی کمر توڑ کر رکھی دی تھی جس کے بعد ہی اسرائیل نے مجبور ہو کر فضائی حملوں پر زیادہ انحصار کیا۔ اسرائیل نے اس جنگ سے حاصل ہونے والے سبق کے بعد ہی غزہ کے قریبی فوجی اڈوں کی عمارتوں کو مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ روسی ساختہ کورنیٹ گائیڈڈ راکٹوں اور ”107 ۔ آرک” راکٹوں نے اسرائیل کے تمام حفاظتی اقدامات کو ملیامیٹ کردیا تھا۔
گائیڈڈ راکٹ
فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹ ”107” ایک گائیڈڈ راکٹ ہے جو غزہ کی حدود سے آٹھ سے نو کلومیٹر تک انتہائی درست طور پر نشانہ لے سکتا ہے۔ لہذا یہ فلسطینی مجاہدین کے یہ راکٹ اسرائیل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ ان راکٹوں کی وجہ سے فلسطینی غزہ کے قریبی علاقوں میں موجود کسی بھی اسرائیلی گاڑی اور عمارت کا انتہائی درست نشانہ لے سکتے ہیں۔ ہدف کا درست نشانہ لینے کی اسی صلاحیت کی بنا پر اسرائیلی فوج میں شدید خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوج عہدیداروں کے اسی خوف کیوجہ سے حکام اپنے فوجی اڈوں کو مضبوط سے مضبوط تربنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں تاہم اب تک کے تجربے کے مطابق اس کے یہ حفاظتی اقدامات ہمیشہ ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔
بشکریہ:مرکز اطلاعات فلسطین