مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی میڈیا میں صہیونی پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے تیار کردہ ایک خفیہ دستاویز سامنے آئی ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ غزہ کی پٹی میں جنگ سے متاثرہ کسی شخص کی جانب سے اسرائیل کےخلاف ہرجانے کا مطالبہ کرنے کی کسی بھی درخواست کو قبول نہ کیا جائے۔ چاہے یہ درخواست کسی انسانی حقوق گروپ کی جانب سے دی جائے یا غزہ کا کوئی فراد یا خاندان اپنے طورپر کوئی درخواست دے۔
رپورٹس کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری کردہ اس نئی دستاویز کے سامنےآنے کے بعد غزہ کی پٹی کے شہریوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ہرجانےنقصانات کے ازالے اور ہرجانے کے لیے دائر درخواستیں ردی کی ٹوکری کی نذر کردی جائیں گی اور عدالتیں ایسی کسی درخواست کو درخور اعتنا نہیں سمجھیں گی۔
اسرائیلی اخبار”ہارٹز” میں خاتون کالم نگار عمیر ھس نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں اس نئی سازش کو
طشت ازبام کیا گیا ہے۔ عمیرہ ھس لکھتی ہے کہ پراسیکیوٹرجنرل کی جانب سے جاری کردہ نئی دستاویز میں سفارش کی گئی ہے کہ غزہ کے کسی شخص کو جنگ سے متاثرہ ہونے کی بنیاد پر اسرائیلی فوج یا ریاست کے خلاف ہرجانے کی درخواست دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر ایسی کوئی درخواست سامنے آبھی جائے تو اس کے اسرائیل کی حمایت کرنے والے گواہ پیش کرکے اسے رد کردیا جائے۔
صہیونی تجزیہ نگار مزید لکھتی ہیں کہ غزہ کے جنگ سے متاثرہ شہریوں کو ہرجانے کے لیے اسرائیلی عدالتوں کے دروازے کھٹکٹھانے سے روکنے کے لیے سامنے لائی گئی دستاویز سابق عدالتی مشیر موشے لاڈور نے تیار کی ہے۔ اس دستاویز میں صاف الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیل کی کوئی عدالت غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے کسی فلسطینی کی ایسی کسی درخواست کو مسترد کردے جس میں غزہ جنگ کے دوران فوجی حملوں میں ہونے والے نقصان کے ازالے اور ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔
رپورٹ کے مطابق اب تک اسرائیلی عدالتوں میں ایسی کئی درخواستیں سامنے آ چکی ہیں۔ ان میں زیادہ تر درخواستیں انسانی حقوق کی تنظیموں”مرکز عدالہ”، مرکز برائے انسانی حقوق 48″، "المیزان آرگنائزیشن”۔ مرکز برائے انسانی حقوق اور "اطباء انسانی حقوق مرکز” کی جانب سے دی گئی ہیں جبکہ چار درخواستیں غزہ کی پٹی کے شہریوں نے انفرادی طور پر بھی دے رکھی ہیں۔
ہرجانے کے دعوے دار فلسطینیوں کو صہیونی عدالتوں سے روکنے کے لیے مختلف نوعیت کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مثلا کہا گیا ہے کہ درخواست گذار کو نقصان کے الزالے کی درخواست 60 روز کے اندر اندر درج کرانی ہوگی ورنہ اس کے بعد آنے والی درخواستوں پر غور نہیں کیا جائے گا۔ اگر کوئی فلسطینی وقت مقررہ کے اندر بھی درخواست جمع کرادے تو درخواست گذار اور اس کے گواہوں کو سیکیورٹی سمیت دیگروجوہات کی بناء پرعدالتوں تک رسائی سے روک دیا جائے۔ عدالت میں حاضری کی کوشش میں بار بار کی ناکاکی کے بعد درخواست گذار ویسے ہی دستبردار ہو جائیں گے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین