اسرائیلی فوج کے مقرب خیال کیے جانے والے ایک صہیونی صحافی نے انکشاف کیا کہ سنہ 2006ء میں غزہ کی پٹی میں مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے یرغمال بنائے جانے کے بعد حماس کے ملٹری ونگ نے "عزالدین القسام بریگیڈ” نے مزید اسرائیلی فوجیوں کواپنے جال میں پھانسے کا منصوبہ تیارکیا تھا تاہم فوجی القسام بریگیڈ کے اس جال سے بال بال بچے تھے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار”یدیعوت احرونوت” سے وابستہ صحافی "رونین بیرگمین” نے اسرائیلی ریڈیوکے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ گیلاد شالیت کی اغواء کے چند ماہ بعد کا واقعہ ہے کہ حماس کے عسکری بازو کی جانب سے بنائی گئی ایک کمین گاہ کے قریب اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی تلاش کے لیے پہنچ گئےتھے۔ تاہم اگر فوجی چند میٹرمزید آگے جاتے تووہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے گھیرے میں آ جاتے جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے ممکنہ فائرنگ کے نتیجے میں نہ صرف فوجیوں کے ہلاک ہونے کا اندیشہ تھا بلکہ کئی فوجی اغواء بھی کیے جا سکتے تھے۔
صہیونی صحافی کا کہنا ہے کہ حماس نے یہ کمین گاہ لگائی ہی اس لیے تھی تاکہ اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو اس علاقے میں تلاش کے لیے آئیں اور ایک مخصوص علاقے میں داخل ہونے کے بعد انہیں اغواء کر لیا جائے۔
رونین کا کہنا ہے کہ سنہ 2006ء کے آخر میں اسرائیلی انٹیلی جنس حکام کوغزہ کے اس مکان کے بارے میں معلومات ملیں تھیں جس میں گیلاد شالیت کو ٹھہرایا گیا تھا۔ فوج نے شروع میں اس مکان پر حملے اور گیلاد شالیت کو چھڑانےکا منصوبہ تیار کیا تھا تاہم میں اس پرعمل درآمد روک دیا تھا۔
یہودی صحافی نے بتایا کہ بعد میں اسرائیلی انٹیلی جنس کی وہ معلومات غلط ثابت ہوئیں، کیونکہ گیلاد شالیت اس مکان میں نہیں رکھا گیا البتہ اس مکان کے بارے میں اس طرح کی خبریں اس لیے نشر کی گئی تھیں تاکہ اسرائیلی فوجی اس کا گھیراؤ کریں اور گیلاد کی تلاش کے بجائے خود بھی مجاہدین کے ہاتھوں پکڑ لیے جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں رونین بیگمین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں تفصیلات منظرعام پر نہ لانے کی تاکید کی جا رہی ہے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہےاور اس کے منظرعام پرآنے کے بعد اسرائیلی فوج کو شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر رہے کہ اسرائیل کے ایک فوجی گیلاد شالیت کوسنہ 2006ء کے موسم گرما میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اغواء کر لیا تھا۔ جسے ساڑھے پانچ سال تک حراست میں رکھنے کے بعد حال ہی میں ایک ہزار ستائیس فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑا گیا ہے۔