مصر میں پندرہ ماہ قبل سابق صدر محمد حسنی مبارک کےخلاف برپا ہوئے عوامی انقلاب کے بعد پہلے صدارتی انتخابات نہ صرف مصری عوام کے لیے ایک بڑی تبدیلی کا موجب بنیں گے
بلکہ ان انتخابات اور نئے انقلابی مصری صدر کے چناؤ سے فلسطینی محصور شہرغزہ کی پٹی کے شہری بھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین کی ایک تفصیلی رپورٹ میں مصری انتخابات اور فلسطینیوں کی توقعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مصرکے ما بعد انقلاب تمام صدارتی امیدوار مسئلہ فلسطین کے حل کو اپنے سیاسی منشور میں نہ صرف شامل کرچکے ہیں بلکہ ان کے نزدیک مسئلہ فلسطین کاحل بالخصوص غزہ کی پٹی کے معاشی محاصرے کے خاتمے کو وہ اپنی پالیسیوں کی اولین ترجیح کے طورپر دیکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مصرمیں جب سے صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع ہوئی ہے تمام صدارتی امیدوار اپنے اپنے طورپر فلسطینیوں کی کھل کرحمایت کا اظہار کرچکے ہیں اور یہ بتا چکے ہیں کہ فلسطین کی سلامتی مصر کی سلامتی اور فلسطینیوںکی آزادی اورخود مختاری مصری عوام کی خود مختاری کے مترادف ہے۔
چنانچہ صدارتی انتخابات کے ان تمام بلند بانگ دعوؤں کے تناظرمیں فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کی پٹی کے ڈیڑھ ملین افراد یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ مصرکا نیا صدر ان کے لیے نہ صرف مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہوگا بلکہ ایک نجات دہندہ بن کرآئے گا۔
معجزے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ فیصلوں کی ضرورت
غزہ کے ایک شہری اسامہ عمرنے مرکزاطلاعات فلسطین(پی آئی سی) سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی قوم نے کچھ عرصے سے نہایت تلخ ایام دیکھے ہیں خاص طور پر اہالیان غزہ کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل کام ہے۔ غزہ کے شہری مصر کے سب سے قریبی اور مستحق پڑوسی ہیں۔ سابق مصری حکومت نے اہالیان غزہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے بلکہ صہیونی معاشی پابندیوں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں ہم نئے مصری صدر کو اپنی تمام مشکلات کے حل کے لیے ایک "نجات دہندہ” سمجھتے ہیں۔ ہم مصر سے یہ نہیں کہتے کہ وہ کوئی معجزہ کر دکھائے بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ مصری حکومت حقیقت پسندانہ فیصلے کرے جس سے فلسطینیوں کی مشکلات کو کم سے کم کرنے میں مددلی جاسکے۔
صہیونی ریاست سے دوستی ختم کی جائے
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے ایک دوسرے شہری نے مطالبہ کیا کہ مصرکا نیا صدر اسرائیل کے ساتھ سابق دور کے سفارتی تعلقات پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا آنے والا مصری صدر فلسطینیوں کے بارے میں اپنے دعوؤں اور وعدوں پر کتنا عمل پیرا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصرکی سابقہ حکومت نے غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کی منتخب حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بجائے صدر محمود عباس اور ان کی جماعت الفتح کی غیرآئینی حکومت کے ساتھ تعاون کیا گیا اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مصری حکومت اسرائیل سے تعلقات پر نظرثانی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت کے ساتھ کھل کر معاملات کرے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین