فاکس نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے نازیوں سے یا جاپانیوں سے مذاکرات نہیں کیے، ہم نے انہیں مکمل طور پر ختم کیا تھا۔” یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب حالیہ دنوں میں واشنگٹن میں غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے سفارت خانے کے دو ملازمین قتل ہوئے، جن کے قاتل نے اپنے اقدام کو غزہ میں جاری بمباری کے خلاف احتجاج قرار دیا۔
فائن نے اسی ہفتے فلسطینیوں کی سیاسی فعالیت کو “کم” کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا، جسے ناقدین نے نفرت انگیز اور نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔
امریکہ میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے فائن کے بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معافی مانگیں اور انہیں کانگریس کی تمام کمیٹیوں اور کاکسز سے نکالا جائے۔
CAIR کے حکومتی امور کے ڈائریکٹر رابرٹ ایس میک کاو نے اپنے بیان میں کہا، “یہ محض ایک اشتعال انگیز بیان نہیں بلکہ کھلی دعوت ہے نسل کشی کی، جس سے امریکی مسلمانوں اور فلسطینی نژاد امریکیوں کی زندگیوں کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “فائن صرف ایک خطرناک نسل پرست نہیں بلکہ وہ کانگریس کا موجودہ رکن ہے جو کھلے عام فلسطینیوں کی نسل کشی کا خواب دیکھ رہا ہے۔”
CAIR نے اس ماہ کے آغاز میں کانگریس کے تمام ارکان اور 1,600 سے زائد عملے کو ایک خط بھیجا، جس میں فائن کے مسلم مخالف بیانات کے ریکارڈ کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ ان بیانات میں غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے، ایک رکن کانگریس کو “مسلم دہشت گرد” کہنے، اور فلسطینیوں کو “راکٹ کھانے” جیسے اشتعال انگیز الفاظ شامل ہیں۔
رینڈی فائن سوشل میڈیا پر بھی “بم دور” اور “بھوک سے دور” جیسے ہیش ٹیگز کے ذریعے غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حملوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
بدھ کو انہوں نے فلسطینیوں کے حق میں نکالے گئے مظاہروں کو “غیر پرامن” قرار دیا اور مظاہرین کو “شیطان” کہہ کر کچلنے کی بات کی۔
یہ تبصرے ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب غیر قانونی صیہونی ریاست اسرائیل کے حملوں نے غزہ میں اب تک 61,700 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے، جب کہ علاقے میں وسیع پیمانے پر تباہی اور انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کارروائیوں کو نسل کشی قرار دے چکی ہیں۔
ان بیانات نے فائن کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور انہیں کانگریس سے نکالنے کی مہم میں تیزی آ گئی ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسے خطرناک خیالات رکھنے والے افراد کو قانون سازی کے اختیارات سے فوری طور پر محروم کیا جانا چاہیے۔