فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی حکومت نے مصری حکومت کی جانب سے 70 فلسطینی شہریوں کو 25 جنوری 2011ء کے انقلاب میں مداخلت کے الزامات کے تحت اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔
وزارات داخلہ کا کہنا ہے کہ مصری حکومت انتقامی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے بے گناہ شہریوں پر جھوٹے الزامات عائد کر کے فلسطینیوں کو بھی انقلاب میں ملوث کرنےکی کوشش کر رہی ہے۔ فلسطینی حکومت ایسے جھوٹے اور جعلی الزامات کے تحت اپنے کسی بھی شہری کو مصر کے حوالے نہیں کرے گی۔ اگر قاہرہ حکومت کے پاس کسی شہری کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انہیں منظرعام پر لایا جائے۔
مرکزا طلاعات فلسطین کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دیگر حکام نے مصری حکومت کی طرف سے جاری ستر مطلوب افراد کی فہرست کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی ہے۔ اس فہرست میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس پر مصری انقلاب میں مداخلت کا شبہ کیا جا سکتا ہو۔ یہ تمام الزامات من گھڑت اور جعلی ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مصری حکومت کی جانب سے ایسے الزمات عائد کیے گئے جو سر تا پا جھوٹ کا پلندہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2011ء کے انقلاب میں ایسے کئی فلسطینی شہداء کے نام شامل ہیں جو 2008 اور 2010ء کے دوران صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید ہوگئے تھے۔ ان میں حسام عبداللہ ابراہیم الصانع شہید اور تیسیر ابو سنیمہ شہید بھی شامل ہیں۔ اسی فہرست میں دو شہری جو 2005 اور 2007 کو انتقال کر گئے تھے انقلاب میں مداخلت میں ملوث بتائے گئے ہیں۔
مصری فہرست میں شامل فلسطینی شہری حسن سلامہ سنہ 1996ء سے اسرائیل کی جیل میں عمرقید کی سزا کاٹ رہیں۔ فہرست میں شامل 33 اشتہاری ایک مرتبہ بھی غزہ کی پٹی سے باہر نہیں گئے ہیں، لیکن انہیں بھی اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ مصری فہرست میں پانچ ایسے نام بھی شامل ہیں جو فلسطین میں اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔ ان میں محمد احمد موسیٰ، شادی حسن ابراہیم، رشاد محمد ابو خضیرہ، رامی احمد خیراللہ اور محمد جامع معیوف شامل ہیں۔
غزہ وزارت داخلہ نے مصری حکومت سے کہا ہے کہ وہ اشتعال انگیزی اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا سلسلہ بند کرے اور بے گناہ شہریوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کی پالیسی سے باز آ جائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کا مصر کے کسی انقلاب میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر قاہرہ حکومت کے پاس کسی فلسطینی شہری کے ایسے کسی بھی واقعے میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انہیں سامنے لایا جائے ورنہ جعلی فہرستوں پر غزہ حکومت کوئی ایکشن نہیں لے سکتی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین