فلسطینی شہر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جانب سے تازہ جارحیت مسلط کیے جانے کے بعد مصر نے شہرسے ملحقہ بارڈر کو چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر دوطرفہ آمد ورفت کے لیے کھول دیا ہے۔
مصر کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حکام نے غزہ اور مصر کے درمیان رفح بارڈر کو مستقل بنیادوں پر کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ صہیونی جارحیت کی صورت میں متاثرہ علاقوں تک رسائی میں آسانی پیدا کی جا سکے۔ حکومت نے بارڈر پر تعینات سیکیوری اہلکاروں کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی ہیں اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سرحد کے آرپار امد و رفت کو آسان سے آسان بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ سے ملحقہ مصری شہرالعریش کے تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے اور فلسطین میں صہیونی فوج کی جارحیت کی صورت میں زخمیوں کے علاج معالجے کے لیے ہنگامی طبی امداد کی فراہمی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
ادھر فلسطینی امور کے تجزیہ نگار اور فلسطین اسٹڈی سینٹر کے چیئرمین ابراہیم الدراوی کا کہنا ہے کہ بدھ اور جمعرات کی شام امریکی صدر براک اوباما نے اپنے مصری ہم منصب کو ٹیلیفون کر کے غزہ کی صورت حال پر بات کی کی تھی۔ امریکی صدر یہ چاہتے تھے کہ وہ مصر کے توسط سے فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان کوئی فائر بندی کرا دیں۔ تاہم صدر محمد مرسی نے امریکی صدر کو ٹکا سا جواب دے دیا۔ صدر محمد مرسی نے امریکی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے جارحیت کا ارتکاب صہیونی ریاست نے کیا ہے۔ وہ فلسطینیوں کو فائر بندی سے کیسے منع کر سکتے ہیں۔ فلسطینیوں کو بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ وہ فلسطینیوں کو راکٹ حملوں سے منع نہیں کر سکتے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین