(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) یورو-میڈ مانیٹر فار ہیومن رائٹس نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کی پالیسیوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں اکتوبر 2023 سے روزانہ اوسطاً تیس فلسطینی مستقل یا عارضی معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ بائیس ماہ کے دوران غزہ میں معذور فلسطینیوں کی تعداد میں پینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ براہِ راست قابض اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کا نتیجہ ہے جن میں جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور انتہائی تباہ کن ہتھیار استعمال کیے گئے۔ ان حملوں کے باعث ہزاروں فلسطینی نہ صرف شہید اور زخمی ہوئے بلکہ ایک بڑی تعداد دائمی معذوری، اعضاء کے کٹنے، دماغی و حسیاتی امراض اور شدید نفسیاتی و جسمانی تکالیف کا شکار ہو گئی۔
یورو-میڈ مانیٹر کے اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیلی فوج کی چھ سو اکیاسی دنوں پر محیط بربریت کے دوران تقریباً ایک لاکھ چھپن ہزارفلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے اکیس ہزارافراد کو معذوری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ہزاروں افراد اعضاء کٹنے، فالج، بینائی سے محرومی، گویائی و سماعت کے خاتمے اور دیگر مستقل بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو مستقل جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے لیے خطرناک ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2023 سے قبل غزہ میں معذور افراد کی تعداد تقریباً اٹھاون ہزار تھی۔ قابض اسرائیل کے نسل کشی پر مبنی اقدامات کے نتیجے میں صرف تئیس ماہ میں اس تعداد میں اکیس ہزار کا اضافہ ہوا جس سے یہ شرح کل آبادی کا چار اشاریہ تین فیصد ہو گئی۔ اس تعداد میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو گزشتہ برسوں میں "مسیرات العودۃ” (حق واپسی مارچ) کے دوران یا دیگر حملوں میں سفاک صہیونی فوج کی فائرنگ سے معذور ہوئے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ قابض اسرائیل نے نہ صرف زخمیوں کو طبی امداد سے محروم رکھا، بلکہ صحت کے پورے نظام کو تباہ کر دیا۔ ہسپتالوں پر بمباری، ادویات اور جراحی کے آلات کی شدید قلت، امدادی کارروائیوں کو نشانہ بنانا اور زخمیوں کو گھنٹوں ملبے تلے دبے رہنے دینا یہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معذوری کو ایک منظم پالیسی کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے۔
یورو-میڈ مانیٹر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ قابض اسرائیل نے معذور افراد کی خدمت کرنے والے 80 فیصد سے زائد اداروں اور مراکز کو تباہ یا نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں رفح اور غزہ کے وہ مراکز بھی شامل ہیں جو نابینا، بہرے اور جسمانی طور پر معذور بچوں کو سہولیات فراہم کرتے تھے۔ یہاں تک کہ شیخ حمد ہسپتال برائے مصنوعی اعضاء اور بحالی جیسے اہم مرکز کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں ایسے عینی شاہدین کی گواہیاں بھی شامل ہیں جو قابض اسرائیلی گولیوں اور بمباری کا نشانہ بن کر معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خان یونس کے رہائشی انور بسیسہ کو ایک اسرائیلی سنائپر نے ریڑھ کی ہڈی پر گولی ماری، جس سے وہ زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو گئے۔ ایک اور شہری امدادی قافلے کے قریب ڈرون حملے میں زخمی ہوا اور اپنی ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ ایک فلسطینی لڑکی نے بتایا کہ اسرائیلی بمباری نے اس کی بینائی چھین لی اور اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں ڈوب گئی۔
یورو-میڈ مانیٹر نے کہا کہ یہ معذوری صرف ایک طبی مسئلہ نہیں، بلکہ قابض اسرائیل کی نسل کشی کی پالیسی کا ایک حصہ ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو نہ صرف جسمانی طور پر ناکارہ بنانا ہے بلکہ ان کی نفسیاتی اور سماجی طاقت کو بھی کمزور کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، معذور فلسطینیوں کو جیلوں میں بھی قید کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں شدید اذیت، طبی سہولیات سے محرومی اور غیر انسانی حالات کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یورو-میڈ مانیٹر آبزرویٹری نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیل کے اس نسل کش منصوبے کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے۔ اسرائیل پر سیاسی، اقتصادی اور عسکری پابندیاں عائد کی جائیں، اسے ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے اور قابض اسرائیلی مجرموں کو عالمی عدالتوں میں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔