قابض اسرائیل نے غزہ میں پانچ سو اسکول تباہ کر دیے ہیں: ہیومن رائٹس واچ
ان میں وہ اسکول بھی شامل ہیں جو بے گھر فلسطینیوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ میں اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ” نے جمعرات کو ایک تشویشناک رپورٹ جاری کی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل نے ساتھ اکتوبر 2023 سے جاری نسل کش جنگ کے دوران غزہ میں پانچ سو سے زائد اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں وہ اسکول بھی شامل ہیں جو بے گھر فلسطینیوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غزہ میں اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ان حملوں میں امریکی ساختہ ہتھیار استعمال کیے گئے اور یہ حملے اندھا دھند، غیر قانونی اور بلا جواز تھے، جن کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم فلسطینی شہید ہوئے اور غزہ کے بیشتر تعلیمی ادارے شدید نقصان سے دوچار ہوئے، جس سے ہزاروں بچوں کا تعلیمی مستقبل تباہ ہو گیاہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ حملے نہ صرف تعلیمی مراکز پر کیے گئے بلکہ ان عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جو شہریوں کے لیے واحد محفوظ پناہ گاہ تھیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ تباہ شدہ اسکولوں کی بحالی میں طویل عرصہ درکار ہوگا جس سے غزہ میں تعلیمی عمل آئندہ کئی برسوں تک مفلوج رہے گا۔
تنظیم نے عالمی حکومتوں بشمول امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قابض صہیونی حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی پر فوری پابندی عائد کریں اور اقوام متحدہ کی نسل کشی روکنے کی کنونشن پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جن اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں کسی قسم کا فوجی ہدف موجود ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق صرف جولائی میں اسکولوں پر حملوں میں انسٹھ فلسطینی شہید اور درجنوں خاندان بے گھر ہوئے۔
فلسطینی علاقوں میں تعلیم کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی ستانوے فیصد اسکول عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں جبکہ بیانوےفیصد کو مکمل تعمیر نو کی ضرورت ہے۔
یہ تمام مظالم بین الاقوامی قوانین اور عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو روندتے ہوئے کیے جا رہے ہیں جس میں اب تک دو لاکھ بارہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔