(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی "انروا” کی ترجمان جولیئٹ توما نے ایک ہولناک انکشاف میں کہا ہے کہ غزہ میں بھوک اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ ایجنسی کے کئی ملازمین کام کے دوران بے ہوش ہو رہے ہیں۔
جنیوا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ تصور حد تک گہرا ہو چکا ہے اور قابض اسرائیلی ریاست کے محاصرے اوونسل کُشی نے اسے ایک عذاب میں دھکیل دیا ہے۔
انروا کے تر جمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمیں غزہ سے اپنے ملازمین کی جانب سے دل دہلا دینے والی مدد کی کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ وہ بھوک سے نڈھال ہیں اور کئی کام کے دوران بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
انروا کے مراکز میں ہر دس میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار پایا گیا ہے اور درجنوں بچے قحط سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
مئی کے آخر سے اب تک ایک ہزارسے زائد افراد امداد کا انتظار کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔
اردن اور مصر میں چھ ہزار امدادی ٹرک کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے ساتھ غزہ میں داخلے کے منتظر ہیں لیکن قابض صہیونی حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔
قابض اسرائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے ادارے ’اوچا‘ کے رابطہ افسر کی ویزا کی تجدید روک دی ہےاور گزشتہ چھ ماہ سے انروا کی کسی بھی بین الاقوامی ٹیم مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جانے نہیں دیا جارہا۔
جولیئٹ توما نے عالمی برادری سے فوری اقدامات اور بین الاقوامی میڈیا سے غزہ میں داخل ہو کر وہاں جاری بربریت کو بے نقاب کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے قابض اسرائیل پر اجتماعی قتلِ عام اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔
یہ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی ہے جب مارچ کے آغاز سے غزہ کی تمام گزرگاہیں بند ہیں جس سے پورا علاقہ قحط زدہ ہو چکا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں خوراک کے ذخائر ختم کر چکے ہیں اور فاقہ کشی سے اموات ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہیں۔