اقوام متحدہ کے ماہرین کا انکشاف: قابض صہیونی فوج کی غزہ میں نسل کشی، زندگی کے آثار مٹانے کی سازش
ماہرین کے مطابق قابض صہیونی افواج نے جان بوجھ کر اُن نہتے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا جو بمباری سے بچنے کے لیے سکولوں اور عبادت گاہوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے لرزہ خیز انکشاف کیا ہے کہ قابض صہیونی حکومت نے غزہ میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جو کھلی نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قابض صہیونی افواج نے جان بوجھ کر اُن نہتے فلسطینی شہریوں کو نشانہ بنایا جو بمباری سے بچنے کے لیے سکولوں اور عبادت گاہوں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس سفاک مہم کا مقصد واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ فلسطینی زندگی کے ہر رنگ کو مٹا دیا جائے۔
منگل کے روز جاری ہونے والی ایک مفصل رپورٹ میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے بتایا کہ قابض اسرائیل نے غزہ میں نوے فیصد سے زائد تعلیمی ادارے تباہ کر ڈالے، جب کہ آدھے سے زیادہ مذہبی اور ثقافتی مقامات ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔
کمیٹی کے مطابق صہیونی حملے واضح طور پر جنگی جرائم ہیں۔ ان حملوں میں اسکولوں، یونیورسٹیوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں پناہ گزین شہری موجود تھے۔ ان مقامات پر دانستہ بمباری کر کے نہ صرف شہریوں کو شہید کیا گیا، بلکہ فلسطینی قوم کے تعلیمی، روحانی اور تہذیبی وجود کو مٹانے کی سازش کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض صہیونی فورسز نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ان شہریوں کا قتل عام کیا، جسے انسانیت کے خلاف سنگین جرم اور نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت قائم یہ آزاد عالمی تحقیقاتی کمیشن اپنی مکمل رپورٹ سترہ جون کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش کرے گا۔
سابق اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور کمیٹی کی سربراہ، نافی پیلے، نے ایک بیان میں کہا کہ ہمارے سامنے ایسی واضح شہادتیں آ رہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قابض صہیونی ریاست غزہ میں فلسطینی زندگی کے تمام آثار کو منظم انداز میں ختم کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی قوم کی تعلیم، ثقافت اور دین کو نشانہ بنانا نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلوں کے حقِ خود ارادیت کو بھی پامال کرنے کی سازش ہے۔
یاد رہے کہ قابض صہیونی حکومت نے فروری میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے اس دعوے کے تحت خود کو الگ کر لیا تھا کہ یہ ادارہ "متعصب” ہے۔ مارچ میں جاری ہونے والی اسی کمیٹی کی ایک سابقہ رپورٹ میں یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ قابض ریاست نے غزہ میں خواتین کی طبی نگہداشت کی سہولیات کو جان بوجھ کر تباہ کر کے فلسطینیوں کے خلاف منظم نسل کشی کی تھی۔ اس وقت صہیونی جنگی جرائم کے مرتکب وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے اس رپورٹ کو یہود مخالف اور جانبدارقرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
حماس کے 7 اکتوبر سنہ2023ء کو شروع کیے گئے "طوفان الاقصیٰ” آپریشن کے بعد قابض اسرائیل نے غزہ پر وسیع پیمانے پر تباہ کن جنگ مسلط کی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس درندگی کے نتیجے میں اب تک چون ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ تعلیمی نظام کو جو نقصان غزہ میں پہنچایا گیا اس کی لپیٹ میں مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی بیت المقدس بھی آئے۔ وہاں بھی قابض اسرائیلی فوج کی کارروائیاں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات، اور صہیونی آبادکاروں کی طرف سے مسلسل حملے جاری ہیں۔
اس کے علاوہ، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ قابض حکام نے صہیونی ریاست کے اندر بھی اُن فلسطینی اور یہودی طلبہ و اساتذہ کو نشانہ بنایا جو غزہ کے شہریوں سے اظہار یکجہتی کرتے یا صہیونی جارحیت پر اعتراض کرتے۔ ان میں سے کئی کو نوکریوں سے نکال دیا گیا، معطل کر دیا گیا، اور بعض کو تو گرفتار کر کے توہین آمیز انداز میں حراست میں لیا گیا۔
رپورٹ نے ایک اور افسوسناک پہلو پر بھی روشنی ڈالی کہ صہیونی حکام نے بالخصوص خواتین اساتذہ اور طالبات کو نشانہ بنایا تاکہ انہیں عوامی سرگرمیوں سے باز رکھا جا سکے۔
یہ رپورٹ ایک بار پھر دنیا کو جھنجھوڑتی ہے کہ فلسطینی قوم محض بمباری کا نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی، تہذیبی صفایا اور حقِ زندگی چھیننے کے عمل سے دوچار ہے۔ اب عالمی برادری کی مزید خاموشی صہیونی جارحیت کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔