اسرائیلی فوج کی جانب سے نومبر کے وسط میں غزہ کی پٹی پر مسلط جارحیت کے نتیجے میں
کم سے کم ڈیڑھ ہزار فلسطینی زخمی ہوئے تھے۔ان میں سے بیشتر ابھی اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ سیکڑوں معذور اور اپاہج بھی ہوچکے ہیں اور بعض کے جسموں پر درجنوں زخم آئے ہیں اور وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔ ایسا ہی ایک معمر فلسطینی سلیمان ابو علیان بھی ہے جس کے جسم پر صہیونی فوج کی گولہ باری کےنتیجے میں کم سے کم 100 مختلف نوعیت کے زخم آئے ہیں۔
ابو علیان غزہ کے ایک اسپتال میں زیرعلاج ہے اور جس کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو گولیوں سے چھلنی نہ ہو۔ مشرقی غزہ کے شہر خان یونس میں نیوعبسان کے مقام پر گولہ بارے کے نتیجے میں سلیمان علیان اپنے 14 سالہ بیٹے احمد ابو علیان اور اپنی شہید ہمشیرہ کا بھی وارث ہے، جو اس کے ساتھ ہی گولہ باری میں شدید زخمی ہونے کے بعد جام شہادت نوش کر چکے تھے۔
ستر سالہ سلیمان ابو علیان غزہ کے ایک اسپتال میں زیرعلاج ہے۔ اس نے صہیونی جارحیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ نماز عصر کے بعد مسجد سے نکل کراپنے گھر کی جانب چلا تو اس کا بیٹا عبسان میں ایک کھیل کے میدان میں کھیل کود میں مصروف تھا۔ میں نے بیٹے سے کہا کہ صہیونی جارحیت کا خطرہ ہے اور وہ جلد از جلد گھر پہنچ جائے، کیونکہ صہیونی فوج ہر متحرک چیز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اسی اثناء میں اسرائیلی فوج کے دو لڑاکا طیارے تیزی سے پرواز کرتے آئے ان کے گھروں کے قریب بمباری شروع کردی۔ بمباری اس قدر شدید تھی کہ کئی مکانات ملبے کا ڈھیر ہوگئے۔ وہ بھی زخمی ہو کر گر گیا اور اس کا چودہ سالہ بیٹا احمد بھی شدید زخمی تھا، بمباری میں گھر کے اندر موجود میری ہمشیرہ بھی شہید ہو گئیں۔ مسجد سے آن والے لوگوں نے ہمیں اسپتال پہنچایا۔ میرا زخمی بیٹا اسپتال لے جاتے ہوئے ہی جام شہادت نوش کر چکا تھا۔
ابو علیان نے بتایا کہ بہت زیادہ زخموں کے باعث اس کا جسم خون میں لت پت ہوچکا تھا اور اس کی شناخت بھی نہیں ہورہی تھی۔
خیال رہے کہ ابو علیان صہیونی جارحیت کی واحد زندہ مثال نہیں ہے بلکہ قابض فوج کی درندگی کا نشانہ بننے والے فلسطینیوں کی اکثریت اسی طرح کی خوفناک مثالیں پیش کر رہی ہے۔ صہیونی درندرے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فلسطینیوں کو ہدف بنا کر شہید کرتے رہے ہیں۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین