(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کی وزارتِ صحت غزہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منیر البرش نے خبردار کیا ہے کہ ایندھن کی شدید قلت کے باعث غزہ کی پٹی کے اسپتال آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں مکمل طور پر بند ہو سکتے ہیں جس سے ایک ایسی بے مثال انسانی تباہی جنم لے گی۔
ڈاکٹر البرش نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل براہِ راست صحت کے مراکز کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے حمد بحالی اسپتال پر بمباری کر کے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا، بچوں کے الرنتیسی اسپتال اور العیون اسپتال کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیا اور اس کے علاوہ غزہ شہر کے وسط میں واقع میڈیکل ریلیف سینٹر کو بھی تباہ کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ بار بار حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر اسپتال خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ قابض اسرائیل نے جنگ کے آغاز سے اب تک اڑتیس اسپتالوں کو تباہ یا غیر فعال کر دیا ہے اور صرف تیرہ اسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں جو ہزاروں زخمیوں اور مریضوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
ڈاکٹر البرش نے کہا کہ ایندھن کی قلت سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ صرف اڑتالیس گھنٹوں کا ذخیرہ باقی ہے جو اسپتالوں کے اہم ترین شعبوں کو چلانے کے لیے ناکافی ہے۔ اگر بجلی کی فراہمی معطل ہوئی تو نوزائیدہ بچوں کی نرسریوں، وینٹی لیٹرز اور آئی سی یو وارڈز کے بند ہونے کا مطلب اجتماعی اموات ہوگا۔
انہوں نے الرنتیسی اسپتال کے المناک مناظر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ مریض اپنے ہاتھوں میں ڈرپ کی بوتلیں اٹھائے اور زخموں سے چور ٹانگیں گھسیٹتے ہوئے باہر نکل رہے تھے، جبکہ جنوبی غزہ کے ناصر اسپتال کے شعبے زخمیوں سے بھر گئے ہیں جن کی تعداد اس کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے قابض اسرائیل ماہانہ بنیاد پر اسپتالوں کو ایندھن فراہم کرتا تھا، پھر اسے ہفتہ وار کر دیا گیا اور اب مقدار کم کر کے بالکل روک دی گئی ہے۔ آخری قسط بھی نہیں پہنچی جس نے موجودہ بحران کو جنم دیا اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔
انہوں نے کہا کہ الرنتیسی اسپتال میں کینسر، گردوں اور دل کے مریضوں کے وارڈ بھی تھے جنہیں تباہ کر دیا گیا ہے۔ اب ان مریضوں کے لیے نہ تو علاج ہے اور نہ ہی پناہ اور باقی بچے چند اسپتالوں پر دباؤ ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر البرش نے کہا کہ ایندھن پر پابندی نے صورتحال کو انتہائی خوفناک بنا دیا ہے۔ سینکڑوں نوزائیدہ بچے ان نرسریوں سے محروم ہو جائیں گے جو انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کینسر اور گردوں کے مریض اپنی باقاعدہ علاج گاہوں سے محروم ہو جائیں گے اور ان کی اذیت خاموش موت میں بدل جائے گی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ قابض اسرائیل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ غزہ کے نظامِ صحت کو تباہ کر رہا ہے، اسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور طبی عملے کو شہید کیا جا رہا ہے۔ اب تک سترہ سو تئیس صحت کارکن شہید ہو چکے ہیں جن میں ڈاکٹر، نرسیں اور فارماسسٹ شامل ہیں۔
ڈاکٹر البرش نے بتایا کہ چند روز قبل قابض فوج نے الرنتیسی اسپتال کے اینڈوکرائنولوجسٹ ڈاکٹر ایہاب الحلبی کو شہید کیا تھا اور اس سے پہلے حکیم اشرف ابو محسن کو۔ طبی عملے کو نشانہ بنانا اس پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد غزہ کو اس کے بنیادی صحت کے ماہرین سے محروم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کے اندر سکیورٹی کی عدم موجودگی نے مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں پر نفسیاتی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ جب ایک ڈاکٹر ہی خود کو غیر محفوظ محسوس کرے تو وہ کیسے علاج کر سکتا ہے؟ ۔
ڈاکٹر البرش نے عالمی اداروں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر طبی عملے کے تحفظ کو یقینی بنائیں، ایندھن اور ادویات کی فوری ترسیل کا انتظام کریں اور کم از کم سولہ ہزار ایسے مریضوں کو باہر منتقل کرنے کا بندوبست کریں جن کی زندگیاں نازک حالت میں ہیں اور جنہیں محصور غزہ میں علاج فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
ان بیانات کے ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ غزہ میں محاصرے اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے صحت کا پورا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ اسپتال اپنی گنجائش سے کئی گنا زیادہ مریضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں اور مزید مریضوں کو داخل کرنے کے قابل نہیں رہے۔
اس وقت بھی غزہ شہر میں تقریباً نو لاکھ فلسطینی موجود ہیں جو شدید بمباری کے باوجود شہر چھوڑنے سے انکار کر رہے ہیں یا بے بسی کی وجہ سے جنوبی حصے کی طرف ہجرت نہیں کر سکتے۔
یاد رہے کہ امریکہ کی حمایت سے قابض اسرائیل نے ساتھ اکتوبر 2023 سے غزہ میں نسل کشی کا آغاز کیا ہے جس میں اب تک پینسٹھ ہزار تین سو چونتیس فلسطینی شہید اور ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار ساتھ سو پچانوے زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔