فلسطینی شہرغزہ کی پٹی پر اسرائیل اور مصر کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے باعث ہرشعبہ زندگی سے وابستہ افراد بری طرح متاثر ہو گئے ہیں۔ ان پابندیوں کی زد میں لاکھوں فلسطینی طلباء و طالبات بھی آئے ہیں، جن کا مستقبل خطرے سے دوچار لگ رہا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ وزارت تعلیم کی جانب سے جاری ایک تفصیلی بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایندھن کی مختلف اقسام کی قلت اور مواصلاتی سہولیات کےفقدان کے باعث براہ راست کم سے کم چھ لاکھ فلسطینی طلباء و طالبات متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں سرکاری اسکولوں اور مختلف امدادی ایجنسیوں کے زیراہتمام پانچ لاکھ طلباء وطالبات زیرتعلیم ہیں۔ ایک لاکھ 30 ہزار طلباء جامعات اور اعلٰی تعلیم کے مراحل میں ہیں۔ لیکن ان سب کی مشکلات یکساں ہیں۔ ایندھن اور پٹرولیم مصنوعات کی قلت کے باعث طلباء بروقت اپنے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں نہیں پہنچ پاتے ہیں۔
فلسطینی شہرغزہ کی پٹی میں سیکرٹری محکمہ مالیات ڈاکٹر انور البرعاوی نے میڈیا کو بتایا کہ ایندھن کی قلت فلسطینی طلباء کے مستقبل کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ شہر پر اسرائیل اور مصر کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کے نتیجے میں طلباء بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
سیکرٹری مالیات کا کہنا تھا کہ دور دراز علاقوں سے آنے والے طلباء سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ایندھن اور پٹرولیم مصنوعات کی قلت کے باعث انہیں ٹرانسپورٹ نہیں مل رہی ہے، جس کے باعث وہ سکولوں اور جامعات میں نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔
ڈاکٹر درعاوی کا کہنا تھا کہ مصر کی سرحد کھلی ہونے سے ایک فائدہ یہ ہو رہا تھا کہ شہر میں جنگ سےتباہ اسکولوں کی تعمیرات کا عمل جاری تھا لیکن اب وہ بھی تعطل کا شکارہے۔ غزہ کے سرحدی علاقوں میں سیکڑوں اسکول زیرتعمیر ہیں۔ ان کی عمارتیں اس قابل نہیں کہ ان میں طلباء کا تعلیمی سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ ایسے 10 اسکولوں کی تعمیرات بند پڑی ہیں۔ شہر میں مزید تین اسکولوں کی تعمیر کے لیے ٹینڈر جاری کیے گئے ہیں لیکن ناکہ بندی کے باعث کوئی ٹھیکیدار ٹینڈر جمع کرانے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین